Friday, January 31, 2014

جدید اب رانی ادب کا ایک جائیزہ

ڈاکٹر نورس جاٹ آفریدی

عبرانی، بائیبل کی زبان ہے اورسمیٹک زبانوں میں سب سے پرانی۔ قدیم ترین زبانوں میں سے ایک، عبرانی کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، آج اس یہودی زبان کے بولنے والے تو اسرائیل کی سرحدوں میں محدود ہیں، جن کی تعداد ہے تقریباً پچاس لاکھ، لیکن مذہبی مقاصد کے لئے عبرانی کو برتنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے، جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے عبرانی دنیا کی بڑی زبانوں میں شمار نہیں کی جاتی، یہ زبان نوبل انعام جیت چکی ہے، اپنے بہترین ادب کے لئے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان چینی ہے۔ جس کے بولنے والوں کی تعداد ہے 87,40,00,000 اس نے بھی اب تک صرف ایک ہی نوبل انعام جیتا ہے۔ اسکینڈی نیویائی لوگوں کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں پڑھنے والے اسرائیلی ہی ہیں۔ اسرائیل میں ہر سال چار ہزار نئی کتابیں شائع ہو جاتی ہیں جو قارئین کی آبادی کے لحاظ سے چین کی در کے بعد سب سے اونچی در ہے۔ یہودیوں کی دو ہزار سال کی جلا وطنی کے دوران عبرانی بحیثیت بال چال کی زبان ختم ہوگئی تھی اور صرف مذہبی ضرورتوں کے لئے مخصوص ہو کر رہ گئی تھی بلکل سنسکرت کی طرح۔ عبرانی کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے بڑی حد تک ایک ہی شخص ذمہ دار ہے۔ اِلائزر بین یہودا۔


بین یہودا نے اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ ایک ہی نسل میں عبرانی کو ایک نئی زوردار شکل میں پیدا کردیا۔ جو بہت جلد اسرائیل میں بسنے والے یہودیوں کے جذبے اور احساس کی زبان بن گئی۔ بین یہودا نے عبرانی زبان کے فروغ کے لئے جو کمیٹی تشکیل کی اس نے جدید ترین لسانی ضرورتوں کے مدّنظر ہزاروں کی تعداد میں عبرانی زبان میں نئے الفاظ تراشے۔ اسرائیل کا نعرہ بن گیا “یہودی!دابیر اِورِت” (یہودی! بول عبرانی) شہر اور دیہات ہر طرف ، ہر جگہ عبرانی درسگاہیں قائم کی گئیں۔ 1948میں قیامِ اسرائیل کے بعدعبرانی کو ملک کی سرکاری اور قومی زبان کی حیثیت ملی۔
اس حقیقت کے باوجود کہ یہودیوں کی دو ہزار سال کی جلا وطنی کے دوران عبرانی بول چال کی زبان نہیں رہ گئی تھی، اس میں تخلیقِ ادب کا سلسلہ برقرار رہا۔ اور عبرانی زبان کے کچھ سنہری دور بھی آئے۔ جیسے اسپین اور اٹلی میں۔ اٹھارہویں صدی سے عبرانی نے یورپی ادب کا ایسا گہرا اثر قبول کیاکہ مغربی ادب کا ایک حصہ بن گئی۔ جدید عبرانی ادب کا ابتدائی وقفہ مشرقی یورپ میں گزرا اور پوری بیسویں صدی اسرائیل میں، (14مئی1948) تک جسے فلسطین کہا جاتا تھا۔ حالانکہ بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں عبرانی قلم کار کم تھے پر انہوں نے بڑا معیاری ادب پیدا کیا۔ پہلے نثر میں اور پھر شاعری میں۔ اس دور کا سب سے بڑا نثر نگا ر تھایوسف ہائیم برینر، جسے اسرائیلی عبرانی ادب کا فردِ اوّل کہا جاتا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد مشرقی اور مغربی یورپ سے عظیم عبرانی قلم کار اسرائیل میں آ کر بسے، جن میں نمایاں تھے الّا ئیم نہمان بیالک۔ جن کی شاعری نے عبرانی سخن کے ایک نئے دور کا آغاز کیا، اور جو اب تک یہودیوں کے قومی شاعر کی حیثیت پا چکے ہیں، اور عظیم ترین عبرانی افسانہ نگار اشمائیل یوسیف ایگنون جنہیں 1966میں ادب کا نوبل انعام ملا۔ یہ مہاجر ادیب برس ہا برس کی تخلیقی زندگی کے بعد اسرائیل میں آکے بسے تھے۔ 1920کے بعد ایسے عبرانی ادیبوں کی کئی نسلیں منظرِ عام پر آگئیں جو اپنے موضوعات کے لئے غیر اسرائیلی یہودی بستیوں کی طرف نہیں دیکھتے تھے۔ اور جن کے ادب کی تخلیق اسرائیل میں ہی ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپ اور امریکہ نے عبرانی زبان کے پرانے مرکز معیاری ادب پیدا کرتے رہے جیسے دیوڈ ووگیل کا ناول “شادی شدہ زندگی” (1929)

بیسویں صدی کے تیسری اور چوتھی دہائیوں میں اسرائیل کے عبرانی ادب میں شاعری کی بہار آ گئی۔ روسی انقلاب اور مشرقی یورپ میں یہودیوں کے قتلِ عام کے نتیجے میں اسرائیل آئے مہاجر عبرانی شاعروں نے جرمن طرزِ اظہار اور روسی علامتوں سے متاثر شاعری کی۔ اس اندازِ سخن کے سب سے بڑے شیدائی تھے ایوراہمؔ شلونسکی، یوری زوؔ ی گرین برگ، نیتھن آلٹر ؔ مین، لیہ گولڈبرؔ گ، یوناکن رؔ اتوش، ایودتؔ یشورن۔
ان عظیم شاعروں کے اثرات بعد میں آنے والے شاعروں پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں، جیسے حائیم گوؔ یوری، اے ہائیلیل ؔ اور ناتھنؔ یوناتھن۔ چالیس سے پچاس کی دہائی میں ادبی منظرِ عام پر ان عبرانی ادیبوں کی پہلی نسل ابھری جن کی پیدائش اسرائیل میں ہی ہوئی تھی۔ 1948 کی جنگ کے پس منظر میں ادیبوں کی اس نئی نسل کو “جنگِ آزادی کی نسل” کہا گیا۔ اس نسل کے ادیبوں میں سب سے بڑا نام ہے ایس یزؔ ہار، جو آج اسرائیلی ادب کے Doyen تسلیم کئے جاتے ہیں۔ یزہارؔ کا پہلا افسانہ 1938میں شائع ہوا۔ حال ہی میں برسوں کی خاموشی کے بعد یزہارؔ کے تین ناول منظرِ عام پر آئے جو اسرائیلی شہری زندگی کے عکاس تھے۔یزہارؔ اپنی شاعرانہ نثر کے لئے جانے جاتے ہیں، اس کے برعکس ان کے ہم عصروں کا انداز ان سے بلکل مختلف ہے۔ جب کہ نثر کا زور اسرائیلیوں کے مشترکہ تجربات پر ہے۔ مثلاً ساری دنیا سے آ کر فلسطین /اسرائیل میں بسنے کا عمل اور سیاسی آزادی کے لئے جدوجہد۔ ان نئے ادیبوں کو آلٹر مینؔ کی شاعری سے تحریک ملی جن کی نظم “چاند کی طشتری” (1947) ملک کے بچے بچے کی زبان پر آگئی۔ اس نے اسرائیلیوں کو حب الوطنی اور قربانی کے جذبات سے معمور کردیا۔
موش شمیرؔ ، آئیگل موسنؔ سوہن، اہرونؔ میگیڈ، ناتھن ؔ شہام، ہنوخ ؔ بارتوو اور یزہارؔ نے اپنے افسانوں میں ایک نئے یہودی کی تصویر پیش کی۔ یہ یہودی ایک طاقتور اور آزاد اسرائیلی تھا، جلا وطنی کے دور کا مظلوم نہیں تھا۔ “جنگِ آزادی کی نسل” کے ناول بہت مقبول ہوئے اور ان پر فلمیں بھی بنیں۔
1952میں ادبی جریدہ “لکرات” نے ایک انقلاب کی شروعات کی، اپنے شاعروں ناتن زاخؔ ، موشے ڈورؔ ، اور ارییہ سائیونؔ کے ذریعہ جنہوں نے اپنے کم سن ساتھیوں ڈیوڈؔ ایویڈن، ڈہلیا راویکووچؔ ، اور ڈانپ پیگسؔ کے ساتھ جدید عبرانی شاعری کو شلونسکیؔ -آلٹر مینؔ کی شعری روایات سے آزاد کر کے مشترکہ تجربات و احساسات کے بجائے انفرادی تجربوں پر زور دیا۔ ان شاعروں نے فرانسیسی فلسفے اور ادب کے زیرِ اثر جماعت کے مقابلے فرد کو اہمیت دی، اور اس کے ترجمان بنے۔ جہاں یہوداؔ ایما حئی کی شاعری جنگ اور حکومت کے ظالمانہ اعمال کی مخالف تھی، وہیں ڈیوڈ ایویڈنؔ کی شاعری مشتعل کرنے والی تھی۔
پچاس کی دہائی میں عبرانی ادب نے حقیقت پسندانہ رخ اپنایا۔ ڈیوڈ شاہرؔ کے ناول “سونے کا چاند” (1959) نے اسرائیلی معاشرے کے تاریک پہلو کو بے نقاب کردیا۔ ساٹھ کی دہائی میں اس حقیقت پسندانہ انداز میں کمی آئی، لیکن حال ہی میں اسے پھر دوبارہ اسرائیلی ادب میں محسوس کیا گیا ہے۔ بڑی حد تک یہودی ادیبوں نے اپنے دردناک ماضی سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی ہے اور یہی چاہتے ہیں کہ انہیں بھیشمؔ ساہنی کا “تمس” نہ لکھنا پڑے، لیکن وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے۔ یورپ میں یہودیوں کا قتلِ عام کئی عبرانی ادیبوں کی تصانیف کا موضوع بنا جیسے: ایپلؔ فیلڈ، زیتنکؔ ، شمئیؔ گولن، یوریؔ اورلیو، یہودا ؔ ایمی حئی، بانوخؔ بارتوو، یونتؔ ، سینیدؔ ، ہورامؔ کنیک۔
اسّی اور نوّے کی دہائیوں میں بڑے پیمانے پر یہودیوں پر جرمن نازیوں کے ظلم پر منحصر ناول لکھے گئے۔ قیام اسرائیل سے قبل عبرانی ادب میں ایشیائی یہودی کردار شاذو نادر ہی نظر آتے تھے، لیکن 1960 کے بعد عرب دنیا سے آئے یہودی قلم کاروں نے بڑے پیمانے پر مشرقی یہودیوں پر لکھنا شروع کیا، ان یہودی ادیبوں میں نمایاں ہیں:
آمنون شاموشؔ ، ایلیؔ امیر، سمی مائیکلؔ ، شمعونؔ بلاّس، اہرونؔ الموگ، ڈان ؔ سیری۔
عرب، بطور دشمن اسرائیلی ادب میں، پچھلی ایک صدی سے موجود ہے۔ 1948 کی جنگ نے عربوں اور یہودیوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا۔ جنگ کے بعد ابھرنے والے ناول نویس یزہارؔ ، تموزؔ ، یہوشواؔ اور اوزؔ نے عرب اسرائیلی ٹکراؤ اور کڑواہٹ پر افسوس ظاہر کیا۔ ان افسانہ نگاروں نے عرب (فلسطینی) کو ایک ایسے مظلوم کی حیثیت سے پیش کیا جس کو اپنی ہی زمین سے محروم کردیا گیا۔ لیکن ان قلم کاروں نے اپنی بہت سی تحریروں میں عرب کا خاکہ ایک شرپسند جیسا بھی کھینچا ہے۔ عرب اسرائیلی ٹکراؤ پر عبرانی ادب میں بے پناہ لکھا گیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر عرب اسرائیلی جنگ کا عبرانی ادب پر گہرا اثر پڑا ہے۔
اس کے باوجود کہ ستّر اور اسّی کی دہائی میں کئی اچھے شاعر ابھرے، آج عبرانی شاعری زوال پذیر ہے۔ قارئین کی تعداد گھٹ رہی ہے اور موجودہ شاعری غیر معیاری ہے۔ اس کے برعکس عبرانی نثر پھل پھول رہی ہے۔ معیاری ناولوں کی ایک یا دو سال میں بھی پچاس سے اسّی ہزار کاپیاں بک جاتی ہیں۔ عبرانی زبان میں کئی رنگ و آہنگ کے ادب موجود ہیں، جیسے مزاحیہ ادب ، جاسوسی ادب، بچوں کا ادب، خواتین کا ادب وغیرہ۔ جدید عبرانی ادب ، اسرائیل کے یہودی معاشرے کا درپن ہے اس ادب کا اردو میں بھی ترجمہ ہوا ہے، جس کا سہرا ہے ڈاکٹر خالد سہیلؔ (کینیڈا) کے سر پر۔

No comments:

Post a Comment