Friday, January 31, 2014

ہندوستان کا یہودی ادب





ہندوستان کے یہودی ادب سے مراد ہے وہ ادب، جس کی تخلیق ہندوستانی یہودیوں نے کی، اور جو یہودیوں پر یا یہودی موضوعات پر مبنی ہے۔
یہ ادب بڑے پیمانے پر پانچ زبانوں میں ملتا ہے۔۔۔ اردو، فارسی، ہندی یا ہندوستانی، مراٹھی اور انگریزی۔
بھارت کے یہودی ادب کے تخلیق کاروں میں کچھ عالمگیر شہرت کی شخصیات پیدا ہوئیں، جیسے سرمد، نیسیم ایزیکیل اور ایستھر ڈیوڈ، اس ادب کی تخلیق کا طویل سلسلہ ہندوستان میں یہودیوں کے قیام کی کئی صدیوں پر مشتمل ہے۔ ہندوستان کا پہلا عظیم یہودی شاعر سرمد ہے (1590-1660)۔ ’’سرمد: انوکھی چلت پھرت کا کردار‘‘ (امکان، جون) سرمد کی فارسی رباعیات ہندوستان کی فارسی شاعری کی زینت ہے۔
سرمد گلہ اختصاری باید کرو
یک کارازیں دوکارمی باید کرو
یاجان برضائے دوست ممی بایدداد
یا قطع نظر زیاری باید کرو
سرمد کی شاگردی میں توریت کا عبرانی سے فارسی میں ترجمہ ہوا جو محسن الفانی کی ’’دبستانِ مذاہب‘‘ میں شامل کیا گیا۔
کوکن کے ایک سو بیالیس گاؤں میں تقریباً دو ہزار سال سے مقیم یہودیوں کی بنی اسرائیل ملت سے متعلق ایلوجی ناگاؤنکر (1690-1740) سرمد کی شہادت کے تیس برس بعد اور آج سے لگ بھگ تین سو برس قبل منظر عام پر ابھرے۔ ایلوجی نے بڑے پیمانے پر ہندوستانی اور مراٹھی میں رزمیہ اور لاونیں کہیں، جو آج بھی کوکن میں سنی جاتی ہیں۔
’’کربندگی صاحب کی وہ یارو! الف نام کو پچھاننا،
ایک نام ہے سچا الٰہی جس کے رستے جانا،
مارے اسرائیل تم نے سننا بندگی کرنا صاحب کی،
تین وقت کی نماز پڑھنا یاد رکھو اس کلمہ کی،
تین وقت کے کتنے مکان کہو نام و نشانی اس مکان کی،
اوضو نواز و ہر دم کرنا پاک نیت ہونا سب کی،
صاحب سے نمکر چلنا کر بھلی بری کو ڈرنا،
کلمہ کی پچھان رکھنا دو دن کا جگ میں جینا،
ایک نام ہے سچا الٰہی،
اسرائیل کی بیٹھ مجالس سنو خدا کی ایک بانی،
مجھے چھوڑ کے دوسری مورتی نہیں کرنا اپنے من کی،
ایک نام ہے سچا الٰہی روپ دل میں ہر دم گیانی‘‘
ایلو جی: گاگونکر
مراٹھی شاعری کی صنف لاونی کے ایک اور عظیم یہودی شاعر تھے، روبن جی عیسا جی ناگاؤنکر، جن کی پیدائش ممبئی میں انیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ہوئی۔ لاونی کے گایکوں کے دو گٹ ہوا کرتے تھے۔ ایک گٹ نسوانی جذبات کا ترجمان تھا۔ جسے ’’کلگی‘‘ گٹ کہتے تھے اور دوسرا مردانہ تیورں کا جو ’’تورا‘‘ گٹ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ روبن جی کلگی گٹ کے سردار تھے۔ ان دو گٹوں کے شعری مقابلوں کی محفلوں کو ’’مجالس‘‘ کہا جاتا تھا۔ پوری پوری رات شاعری میں سوال و جواب ہوتا تھا۔ لاونی بڑے پیمانے پر مزاحیہ شاعری ہے۔ روبن جی نے اپنی لاونیوں میں عبرانی الفاظ کا ایک نیا تجربہ کیا اور ان کی لاونیوں میں موضوعات اکثر یہودی ہوتے تھے۔ یہودیوں کے مذہبی ادب کو مراٹھی میں منتقل کرنے کا سہرا جاتا ہے جوزف ایزیکیل راجپورکر کے نام۔
ہندوستانی صحافت کے ابتدائی دور میں یہودیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ 8 ستمبر 1877ء کے دن روبن ابراہم کورلیکر نے ایک مراٹھی سہ ماہی ’’ستیہ پرکاش‘ نکالا، جو 27 جون 1884ء تک شائع ہوا۔ ستیہ پرکاش کے ساتھ ہی ایک اور یہودی سہ ماہی ’’اسرائیل آشرم‘‘ 30 ستمبر 1877ء کے دن منظر عام پر آیا۔ اس مراٹھی پرچے کے مدیر تھے، ڈیوڈھیام ویویکر۔ اس رسالے کے بارہ شمارے نکلے۔ یکم اپریل 1881ء کے روز تیسرا ہندوستانی یہودی سہ ماہی ’’اسرائیل‘‘ وجود میں آیا۔ اس کے مدیر تھے، سیمویل ہیام کوہیمکر۔ اسرائیل کا آخری شمارہ 16 فروری 1885ء کو نکلا۔ یہ سہ ماہی اینگلو جوئش ایسوسی ایشن کی امداد کے سہارے نکلا تھا۔ جب امداد رکی تو پرچہ کی اشاعت ہی رک گئی۔ ان پرچوں کے ساتھ ساتھ ایک اور یہودی سہ ماہی ’’نیر اسرائیل‘ نے مراٹھی صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔ اس کی اشاعت کے دو دور رہے۔ 5 اکتوبر 1881ء سے 13 نومبر 1885 تک اور پھر 6 جنوری 1893ء سے 28 فروری 1897ء تک۔ اسی درمیان ایک ہندوستانی یہودی ماہنامہ ’’بنی سرالائٹ‘‘ 3 دسمبر 1893ء سے شائع ہونا شروع ہوا۔
ہندوستانی یہودیوں کی بنی اسرائیل ملت کی تاریخ پر پہلی کتاب ’’ہسٹری آف دی بنی اسرائیل آف انڈیا‘‘ ہائن سیمویل کوہیمکر نے سن 1897ء میں لکھی، پر یہ شائع 1937ء میں ہی ہو سکی۔ زاؤنسٹ تحریک کے سفیر کی حیثیت یس جب ڈاکٹر ایمانیوال اولس وینگر (1888-1961)، 1936ء میں ہندوستان آئے تو انہیں یہ کتاب آنجہانی مصنف کے کنبہ سے ملی جسے انہوں نے اسرائیل میں شائع کرایا۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہندوستان کا ایک نمایاں ڈرامہ نویس ایک بنی اسرائیل یہودی تھا۔ جوزف ڈیوڈ پلوکر نے اردو اور مراٹھی میں کئی ڈرامے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ انہوں نے ہندوستان کی پہلی آواز والی فلم (Talkie) ’’عالم آراء‘‘ کا منظر نامہ (Script) بھی لکھا اور اس طرح ہندوستان کے پہلے فلم اسکرپٹ رائٹر قرار پائے۔
آزاد ہندوستان کی انگریزی شاعری کو غیر ملکی بالادستی سے آزاد کرانے کا کارنامہ انجام دیا ایک بنی اسرائیل یہودی تھے۔ پدم بھوشن پروفیسر نیسیم ایزایکیل (پیدائش ممبئی 1924)۔ ہندوستان کی جدید انگریزی شاعری کے فرد اول ہیں۔ (ہندوستان کی جدید انگریزی شاعری کا فرد اول، امکان اگست 2003ء)۔ ایزیکیل نے اپنی شعری کاوشوں کے لئے ہندوستان کی ’’بابو انگلش‘‘ کو گلے لگایا تھا۔ نیسیم کے کئی شعری مجموعے شائع ہوئے جیسے:
(۱) اے ٹائم ٹو چینج 1952ء
(۲) سکسٹی پوئمس 1953ء
(۳) دی تھرڈ 1959ء
(۴) وی انفشڈ مین 1960ء
(۵) دی ایزیکٹ نیم 1965ء
(۶) لیٹر ڈے پامس۔ جس کے لئے نیسیم ایزیکیل کو 1983ء میں ساہتیہ اکادمی انعام ملا۔
میرا جیکب مہادیون کا شاہکار ہندی ناول ’’اپنا گھر‘‘ (1961) ہندوستان کے بنی اسرائیل یہودی سماج پر ایک معتبر دستاویز ہے۔ 1975ء میں ناول کے مرکزی کردار ’’شول میتھ‘‘ کے نام سے اپنا گھر کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا۔ عالم انسانیت کی تاریخ کے دو اہم واقعات، ہندوستان کی تقسیم اور قیام اسرائیل کا ہندوستان کی یہودی ملت پر کیا اثر پڑا اس کی ایک جھلک ملتی ہے اپنا گھر کے اس اقتباس میں:۔
’’ہندوستان کی تقسیم ہوئی تب بھی یہی مسئلہ سامنے آیا۔ اس کے باپ نے کہا تھا، ہمیں کراچی چھوڑ کر جانے کی ضرورت نہیں، ہماری ان کی لڑائی نہیں ہے۔۔۔ اسے یاد تھا جب پڑوس کا اقبال ولایت گیا تھا اور اسے وہاں مسلم کھانا نہیں ملا تو وہ ایک بنی اسرائیل کنبے کے ساتھ رہنے لگا۔ وجہ یہ تھی کہ یہودی اور مسلمان کبھی بھول کر بھی سور کا گوشت نہیں کھاتے۔ عیسائی ضرور کھاتے ہیں اسی لئے پردیس میں جا کر اقبال یہودیوں کا سوتیلا نہیں، سگا بھائی بن گیا تھا۔۔۔۔ مگر ایک دن کراچی کی یہودی عبادت گاہ مسلمانوں نے لوٹ لی۔ وجہ کیا تھی، یہی کہ فلسطین میں عرب اور یہودی لڑتے ہیں لیکن ہم نے کیا کیا، ہم یہودی ضرور ہیں پر ہندوستانی یہودی۔ ہم نے کسی کا کچھ بگاڑا نہیں، منگل کا دن تھا جب اس کی پھوپھی دوڑتی ہوئی آئی تھی، ’’بھابھی، بھابھی! کچھ سنا تم نے‘‘۔۔۔ ’’کیا ہوا‘‘۔۔۔ ’’عبادت گاہ کو لوٹ لیا‘‘۔ ’’لوٹ لیا کیسے کوئی نہیں تھا وہاں‘‘۔۔۔ ’’بھابھی بہت سارے مسلمان گھس آئے‘ اور حزان اپنے گھر پر تھے۔ اکیلے وہ کیا کر سکتے تھے، دیکھتے دیکھتے انہوں نے قیمتی قالین اٹھا لئے، بڑھیا فانوس نکال لئے اور ہیکل بھی کھول دیا‘‘۔ ۔۔۔’’ہیکل کھول دیا، یا خدا‘‘ ’’سے فیروں پر لگائے ہوئے سونے کے یودھ نکالے جن کا سونا ان پر تھا سارا نکال لیا‘‘ اور بھابھی۔۔۔‘‘ پھوپھی رونے لگی تھیں ’’کہہ دے کہہ دے‘‘ شلمتھ کی ماں نے خوفزدہ آواز میں کہا‘‘ ’’بھابھی انہوں نے تمام مقدس کتابیں جا کر پائخانہ میں ڈال دیں‘‘۔ کسی کو کانوں پر یقین نہیں ہوا۔ جن کتابوں کو ہم سال میں ایک مرتبہ گود میں لے کر ناچتے ہیں، جنہیں پڑھتے وقت ان پر ہاتھ بھی نہیں رکھتے، جنہیں چوم لینے سے ہمیں سکون و قرار ملتا ہے، جن کے پڑھنے پڑھانے سے علم کا سورج اگتا ہے، ہمارے عزیز سیفر تو راہ آج مسلمانوں نے پائخانے میں پھینک دیئے‘‘۔
یہ دردناک خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ سب لوگ عبادت گاہ پہنچے اور حزاں صاحب کتابوں سے لپٹ کر رو رہے تھے، نوجوان غصے سے کانپ رہے تھے۔ عبادت گاہ پھر سے سجائی جانے لگی۔ حزان نے روزہ رکھا۔ کئی عورتوں نے ان کا ساتھ دیا۔ آج مانو جماعت یتیم ہو گئی تھی۔ اطمینان صرف ایک ہی بات کا تھا کہ مقامی مسلمان اس حادثے سے دکھی ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا یہ کام غنڈوں کا ہے، ملک کی تقسیم کی وجہ سے ان کی بن آئی ہے۔ جب انہیں ہندو بھائی نہ ملے تو یہودیوں کی عبادت گاہ لوٹ لی۔
پانچ دن تک کراچی جیسے شہر میں بارش نہیں ہوئی۔ سب یہودی کراچی چھوڑ کر ممبئی آ گئے کچھ رہ گئے۔ ان کا ممبئی میں کوئی نہیں تھا وہ دن کتنا اہم تھا جب اپنا گھر اپنی کراچی چھوڑ کر اس انجان ممبئی شہر میں آئے تھے۔ اسے یاد آئیں۔۔۔ اقبال کی اماں، کتنی اچھی تھیں وہ۔ شلمتھ ان کے گلے مل کر رو پڑی تھی۔ اقبال کھڑا دیکھ رہا تھا۔ ’’اماں اب دوبارہ مل نہ سکیں گے‘‘۔ ’’ہاں بیٹا! اس تقسیم کو آگ لگ جائے‘‘ شلمتھ کی ماں بھی ان کے گلے مل کر روئی تھی ’’یاد رکھنا بہن پانچوں انگلیاں ایک سی نہیں ہوتیں جن کی وجہ سے تم جا رہی ہو وہ مسلمان نہ تھے، خدا کے بندے نہ تھے۔ وہ تھے گناہ گار۔ خدا کو نہ ماننے والے۔ سچا مسلمان تو ہمیشہ ہی یہودی کا بھائی رہے گا۔ یہ خون کا رشتہ کبھی مٹایا نہیں جا سکتا۔‘‘ ’’اگر ایسا نہ ہوتا تو اقبال کی اماں ہمارا دکھ کم ہوتا‘‘ ’’آپ لوگوں کو چھوڑ کر جانا اچھا نہیں لگتا، کیا کر سکتے ہیں بہن‘۔ ’’اچھا بابو خدا حافظ‘‘ ’’خدا حافظ‘‘۔ شلمتھ وہیں لیٹے لیٹے سو گئی۔ یہودیوں کے لئے دوسروں کی نفرت اسے بے حد دکھی کر دیتی ہے۔ شاید خواب میں بھی وہ چیخ چیخ کر یہی کہہ رہی تھی، ہم سب کے بھائی ہیں ہماری کسی سے دشمنی نہیں ہے ہمیں جینے دو‘‘ (صفحات:64-66، میرا جیکب مہادیون ’’اپنا گھر‘)
سن 1947ء میں پاکستان میں یہودیوں کی آبادی تھی دو ہزار، جو زیادہ تر کراچی میں تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہاں کی حکومت نے یہودیوں کی سیاسی نمائندگی ختم کر دی۔ تشکیل اسرائیل کے نتیجے میں کراچی میں یہودیوں کے خلاف فساد بھڑک گئے اور ان کی عبادت گاہ جو 1893ء میں تعمیر ہوئی تھی نذر آتش کر دی گئی، یہودیوں نے ممبئی میں پناہ لی، اور اس طرح کراچی میں یہودی آبادی صرف اڑھائی سو رہ گئی۔
ہندوستان کی ایک نمایاں انگریزی ناول نویس کا نام ہے ایستھر ڈیوڈ، ڈیوڈ کا تعلق احمد آباد کی تین سو افراد کی یہودی ملت سے ہے۔ ڈیوڈ کا پہلا ناول ’’دی والڈ سٹی‘‘، مطالعہ ہے ان طاقتوروں کا جو مختلف قوموں کو اور ان کی نئی پرانی نسلوں کو بیک وقت متحد اور تقسیم کرتی ہے۔ ڈیوڈ کے اکیس غیر معمولی افسانوں کا مجموعہ ’’بائے دی سابرمتی‘‘، جھانکتا ہے۔ عام ہندوستانی عورت کی زندگی میں۔ ایستھر کا دوسرا ناول ’’بک آف ایستھر‘‘ (ایستھر بائبل کی ایک کتاب کا نام بھی ہے) میلہ ہے ہندوستانی یہودی کرداروں کا۔ اس ناول میں سوانحی رنگ ہے۔ کہانی شروع ہوتی ہے برٹش فوج کے ایک ہندوستانی یہودی سپاہی کی کشمکش ہے جسے اپنی ملازمت کی مجبوری کے تحت شیرِ میسور، ٹیپو سلطان کے خلاف لڑنا پڑ رہا ہے، جس کے لئے وہ بے پناہ عقیدت رکھتا ہے۔ ناول کی کہانی اسی خاندان کی کئی نسلوں کے پار احمد آباد کے دور حاضر تک آتی ہے۔ ڈیوڈ کے دلچسپ افسانوں کی راہ سے ہمارے سامنے ہندوستان کے بنی اسرائیل یہودیوں کا پورا سماجی تانہ بانہ ابھرتا ہے۔
یہودی ہمیشہ سے قلم کے دھنی رہے ہیں اور ان کا ادب سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ نوبل انعامات کی ایک صدی (1901-2000) میں دس یہودی نوبل انعام جیت چکے ہیں، جب کہ دنیا کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب صرف 0.2 فیصد اس کے برعکس مسلمان ہیں، جو 19.6 فیصد ہیں اور ہندو جو تقریباً 13.02 فیصد ہیں، دونوں ملتوں کے صرف دو دو ادیبوں نے نوبل انعامات جیتے ہیں (مسلمان: البرٹ کاموس اور نجیب محفوظ/ ہندو: رویندر ناتھ ٹیگور اور ودیادھر سورج پرشاد نائپال)۔

 

No comments:

Post a Comment