Friday, January 31, 2014

میری پہچان ہے کل کے آثار میں

میں یہی تو نہیں اور یہیں تک نہیں
میری پہچان ہے کل کے آثار میں
(انور ندیم)
آج میں ایک ہندوستانی ہوں، اڑھائی سو سال پہلے میرے بزرگ افغان تھے، دو ہزار سات سو اکیس برس قبل اسرائیلی، چار ہزار سال پہلے عراقی، ستر ہزار سال پہلے افریقی اور دو لاکھ برس پہلے بندر۔
پٹھانوں کے ساٹھ قبیلوں میں سے ایک آفریدی قبیلے سے میرا تعلق ہے جس کا بنیادی وطن ہے پاکستان کے سرحدی صوبے کے سات فیڈرلی ایڈمینسٹرڈ ٹرائبل ایریاز (فاٹا) میں سے ایک، خیبر ایجنسی اور افغانستان کا مشرقی قبائلی علاقہ۔ 1748ء سے 1761ء کے درمیان احمد شاہ ابدالی کے پانچ حملوں کے دوران کچھ آفریدی پٹھان قائم گنج، ضلع فرخ آباد اور ملیح آباد، ضلع لکھنؤ میں آ بسے۔ میں ملیح آباد کے آفریدیوں کی اولاد ہوں۔
ممتاز تاریخ دان اور اسرائیل کے دوسرے صدر ییزاخ بین زوی کی شاہ اکر کتاب ’’دی ایکزایلڈ اینڈ دا ریڈیمڈ‘‘ (1957) ایک درجن سے زیادہ فارسی دستاویز، ان گنت یہودی کتابیں، کئی یہودی تنظیموں کی تحقیقات اور اپنے ماضی کے تعلق سے خود آفریدی پٹھانوں کی قبائلی روایت، سب اشارہ کرتے ہیں آفریدی پٹھانوں کے اسرائیلی پس منظر کی طرف۔
آفریدی پٹھانوں کے قدیم پوشیدہ پس منظر کے باعث آج ملیح آباد عالمی دلچسپیوں کی آماجگاہ میں تبدیل ہو چکا ہے دو اسرائیلی تنظیمیں آمی شاؤ اور بیت زور خواہش مند ہیں کہ ملیح آباد کے آفریدی پٹھان اسرائیل ہجرت کر کے اپنی جڑوں کی طرف واپس لوٹ جائیں۔ امریکہ کے مشہور و معروف نوجوان یہودی گلوکار ایلیکس ہیلپرن ملیح آباد آ کر اپنے آفریدی برادران کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ناچیز کو اپنے پہلے خط میں انہوں نے یہی لکھا کہ آج ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں کہ وہ اپنے ہزاروں سال پہلے کے بچھڑے ہوئے بھائیوں سے رابطہ قائم کر سکے ہیں۔ بقول ان کے اس دن کا انتظار ان کے بزرگوں کو تین ہزار سال سے تھا۔
کچھ لوگوں کی نظر میں آفریدی پٹھانوں میں یہودیوں کی گہری دلچسپی صرف ایک سازش ہے مسلم سماج کو اس کے جانباز اور دلیر آفریدی پٹھانوں سے محروم کر کے یہودی بنانے کی، جبکہ سچ تو یہ ہے کہ اسلام اور عیسائیت کے برخلاف یہودی مذہب مزاجاً تبلیغی نہیں، یہودی اپنے مذہب کے ماننے والوں کی تعداد میں اضافے کے لئے کوئی جتن نہیں کرتے۔ دراصل کسی نسلاً غیر اسرائیلی کے لئے یہودی بننا آسان نہیں، یہی وجہ ہے کہ یہودی مذہب بنیادی طور پہ بنی اسرائیل یعنی حضرت یعقوب کی اولادوں تک ہی محدود رہا جبکہ اسلام اور عیسائیت کا پیغام ساری دیا کی تمام نسلوں اور قوموں تک پہنچا، کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ چونکہ کسی نسلاً غیر اسرائیلی کے لئے یہودی بننا آسان نہیں اس لئے یہودی آفریدی پٹھانوں کو نسلاً اسرائیلی ثابت کرنے پہ اتارو ہیں جس سے کہ ان کو یہودیت میں سمیٹا جا سکے اور یہودیوں کی تعداد میں اضافہ ہو لیکن اگر ایسا ہی ہوتا تو نائیجیریا کے ایبو اور جنوبی افریقہ کے لیمبا اب تک یہودی بنا لئے گئے ہوتے جو اپنے شجرے اسرائیل کے گمشدہ قبیلوں سے جوڑتے ہیں جبکہ اس کی تصدیق کے لئے کوئی تاریخی حوالہ نہیں ملتا۔
آفریدی پٹھانوں کے اسرائییی پس منظر کی تصدیق کی غرض سے خاکسار نے نومبر 2002ء میں لندن یونیورسٹی کے عالمگیر شہرتوں کے مالک پروفیسر ٹیوڈر پارفٹ اور دیسی بدیسی زبانوں کی عالیمہ ڈاکٹر یولیا ایگاروو کے ساتھ مل کر ملیح آباد کے آفریدیوں کے لعاب دہن یکجا کئے ڈی این اے نمونوں کے طوپر جینیاتی تحقیق کی خاطر۔
ڈی این اے جانچ کے ذریعہ نسلی پس منظر پتہ لگانے کا طریقہ بائیس سال پرانا ہے، انسانی جسم کے ہر ذرہ میں ڈی این اے موجود ہے اور کسی بھی قسم کی تحقیق کی خاطر ڈی این اے حاصل کرنے کے دو سب سے آسان طریقے ہیں، خون یا لعاب ذہن کے نمونے لینا، کئی پیڑھیوں میں کسی ایک فرد کے ڈی این اے میں کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے جو اس کی تمام آنے والی نسلوں کو متاثر کرتی ہے، وقت گزرتا ہے اور کئی نسلوں بعد اس پرانی تبدیلی میں تو کوئی مزید بدلاؤ نہیں آتا مگر ڈی این اے میں ایک اضافی تبدیلی ضرور ہوتی ہے، وقتاً فوقتاً کئی کئی نسلوں کے بعد انسانی ڈی این اے میں مختلف تبدیلیاں یکجا ہوتی رہتی ہیں جنہیں ہم سائنسی زبان میں میوٹیشن یا ماررکر کہتے ہیں، یہی میوٹیشن یا مارکرس فرد کی جڑوں کا پتہ دیتے ہیں، افریقہ کے باہر جانے والی اس سلسلہ کی سب سے پرانی کڑی یا میوٹیشن یا مارکر ہے، پچاس ہزار سال پرانا ایم (M-168) جو ہر غیر افریقی میں موجود ہے اور اس کا ثبوت ہے کہ تمام مذہبی کتابیں اس معنی میں سچی ہیں کہ ہم سب ایک ہی انسانی جوڑے کی اولادیں ہیں جسے ہم آدم و حوا بھی پکار سکتے ہیں۔ یہ جوڑا آج سے پچاس یا ستر ہزار سال پہلے افریقہ میں رہتا تھا اور وہیں سے اس کی اولادوں نے ساری دھرتی پر بکھر کے اس دنیا کو آباد کیا۔
جہان غیر میں آخر کہاں یہ کارواں ٹھہرا
میری ہستی کا ہر پہلو سفر کا ترجماں ٹھہرا
انور ندیم
عراق میں کیلڈی یا کیلیڈین نام کی ایک قوم رہتی ہے جو آج عیسائی ہے اور اس کی عراق میں آبادی ہے تقریباً چھ لاکھ اور امریکہ میں ڈیڑھ لاکھ، آج سے چار ہزار سال پہلے عراق کے شہر اُر سے اسی قوم کے ایک قبائلی سردار حضرت ابراہیم نے ہجرت کی اور موجودہ اسرائیل میں جا بسے، حضرت ابراہیم تقریباً آدھی انسانی نسل کے لئے باعث احترام ہیں یعنی دو اررب عیسائی، ایک ارب بیس کروڑ مسلمان اور ڈیڑھ کروڑ یہودی، حضر تابراہیم کے ایک پوتے تھے حضرت یعقوب جن کا ایک نام اسرائیل بھی ہے۔ حضرت اسرائیل کے بارہ بیٹے ہوئے جن سے اسرائیل کے بارہ قبیلے پھوٹے۔
آج سے 2 ہزار 721 برس پہلے شمالی اسرائیل پر شمالی عراق، جسے قردستان بھی کہا جا سکتا ہے، کے اسریریائی حملہ آوروں نے حملہ کیا اور وہاں بسنے والے دس قبیلوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جلاوطن کر دیا، یہ قبیلے پھر ہمیشہ کے لئے منظر عام سے غائب ہوگئے اور تاریخ میں اسرائیل کے دس گم قبیلوں کی حیثیت سے جانے گئے، سمجھا جاتا ہے کہ پٹھانوں کا آفریدی قبیلہ اصل میں انہی دس قبیلوں میں سے ایک افرائیم قبیلہ ہے جو آخرکار مشرقی افغانستان اور خیبر میں جا بسا۔
آہ ان سرخ و سیہ صدیوں کے سائے کے تلے آدم و حوا کی اولاد یہ کیا گزری ہے
موت اور زیست کی روزانہ صف آرائی میں ہم پہ کیا گزرے گی اجداد یہ کیا گزری ہے
فیض احمد فیض
تحریر: ڈاکٹر نورس جاٹ آفریدی

ہندوستان کی یہودی سنگ تراش مصورہ اور نامور ادیبہ ایسٹر ڈیوڈ

کانکنیہ تالاب پر ایک دفعہ ایک سلطان نے ایک خرگوش کو ایک حملہ آور کتے سے بہادری اور ہمت کے ساتھ مقابلہ کرتے دیکھا اور طے کر لیا کہ یہاں ایک شہر بسائے گا، جہاں خرگوش جیسا کمزور طاقتور کتے کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ یہی تھا وہ دن جس دن احمد آباد کی تخلیق ہوئی!۔ آج کردار بدل رہے ہیں عجیب و غریب جانور، آدھے خرگوش آدھے کتے، سب ایک دوسرے کو کھاتے ہوئے!۔
کرفیو، فساد اور خون خرابہ! آنسوؤں کا ایک دریا ہمیں دوسرے سے الگ کرتا ہے۔ پرانے شہر کی دیواروں کے نام پر آج صرف اینٹوں کا ایک ڈھیر باقی بچا ہے۔ یہ احمد آباد کی ’’دیوار گریہ‘‘ ہے جو اپنے لوگوں کے آنسوؤں کو دیکھا کرتی ہے۔ اب اس کے پاس کوئی نہیں آتا، کوئی مدد کی گہار نہیں کرتا۔ اس کے دراروں میں اب کبوتروں تک کو پناہ نہیں ملتی۔ مگر شاید اس کی بنیادوں پر چوہوں اور چیونٹیوں نے اپنے گھر بنا لئے ہیں۔ مگر شاید احمد آباد کی روح آج بھی زندہ ہے، پر ایک بوڑھی نانی کی موت مر رہی ہے اور اسے ہماری مدد کی ضرورت ہے یا پھر شاید وہ ہماری مدد کر سکتی ہے!۔
دروازے تنہا سنتریوں کی مانند کھڑے ہیں جیسے وہاں کوئی نہیں جس کی وہ حفاظت کریں۔ کرفیو ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک ایسے سفر طے کرتا ہے جیسے فوجی جوتوں، بندوقوں، پانی کی توپوں اور آنسو گیس سے لپٹا کوئی سانپ ہو جو سارے شہر میں گردش کر رہا ہو۔ سڑکوں پر کوئی چلت پھرت نہیں، صرف سناٹا ہے اور اس خاموشی میں گونج ہے سازشوں کی، مظلوم ہے کون اور کون ہے ظالم، سمجھنا مشکل بتانا مشکل!۔
یہ اقتباس ہے ہندوستان کی ایک نمایاں انگریزی افسانہ نگار ایسٹرڈ ڈیوڈ کے پہلے ناول (دیواروں کا شہر) سے جو 1997ء میں منظر عام پر آیا!۔ احمد آباد ایسٹرڈ ڈیوڈ کا وطن ہے اور ایسٹر ڈیوڈ احمد آباد کی آتما کے رکھوالوں میں سے ایک۔ جن میں کچھ اور نمایاں نام ہیں ہلکا سا بھائی اور تیستہ ستلواڈ!۔
ایسٹر ڈیوڈ ایک نامور ادیبہ ہی نہیں ممتاز سنگتراش اور مصورہ بھی ہیں۔ ایسٹر کو ان کی زندگی بھر کی خدمات کے لئے گجرات للت کلا اکادمی کا سبب سے بڑا انعام مل چکا ہے اور وہ اکادمی کی چیئرپرسن بھی رہ چکی ہیں!۔
آپ کے مجسموں اور تصویروں کی نمائشیں ساری دنیا میں ہو چکی ہیں جن میں اہم ہیں پیرس کی اور نام کی تحریک کے ذریعے احمد آباد کے گپتا نگر علاقہ کی جھوپڑ پٹیوں میں ایسٹر نے بڑا کام کیا جس کے بعد انہیں کی تہذیب و ثقافت اور تعلیم کی تنظیم نے دعوت دی کہ وہ فرانس میں اپنے کام کی نمائش کریں۔ اس نمائش کا عنوان تھا ’’میرے گھر کے سامنے والی سڑک‘‘۔ دو ناولوں اور ایک کہانیوں کے مجموعے کی مصنفہ ایسٹر کی تصانیف کے ترجمے فرانسیسی اور گجراتی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ آپ نے نو بھارت ساہتیہ مندر کی دعوت پر زلزلے پر مختلف افسانہ نگاروں کی لکھی کہانیوں کے ایک مجموعے کو بھی مرتب کیا جس نے بڑی مقبولیت پائی!۔
ایسٹر ڈیوڈ کی پیدائش 1940ء میں احمد آباد میں ہوئی۔ ایسٹر کا تعلق ہندوستان کی تین یہودی ملتوں میں سے ایک، بینی اسرائیل ملت سے ہے (یہودی زور دیتے ہیں کہ تلفظ بینی اسرائیل کیا جائے، نہ کہ بنی اسرائیل)۔ اس ملت کے تقریباً ساڑھے تین سو افراد احمد آباد میں آباد ہیں۔ ایسٹر نے، مہااجہ سایا جی راؤ یونیورسٹی بڑودہ سے گریجویشن کیا اور پھر ایک لمبے عرصے تک اور اور احمد آباد میں پڑھائی۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ایسٹر نے اپنی، مجسموں اور ڈرائنگس کی نمائشیں کیں تاج آرٹ گیلری اور جہانگیر آرٹ گیلری ممبئی میں۔ 1979ء سے انگریزی روزنامے ٹائمس آف انڈیا، احمد آباد کے لئے آرٹ کریٹک رہیں۔ نوے کی دہائی میں ایسٹر ڈیوڈ گجرات للت کلا اکادمی کی چیئرپرسن رہیں۔ 204 صفحات پر مشتمل ان کا پہلا ناول (دیواروں کا شہر)۔ 1997ء میں منظر عام پر آیا جسے ایسٹ ویسٹ بکس مدراس نے شائع کیا۔ ایسٹر ڈیوڈ کی دوسری کتاب ان کی کہانیوں کا مجموعہ تھا۔ (سابرمتی کے کنارے) 2002ء میں Viking نے اپنی تیسری تصنیف۔ دوسرا ناول۔ 394 صفحات پر مشتمل (کتاب ایسٹر) شائع کیا۔ اسی سال یروشلم (اسرائیل) کی ہبریو یونیورسٹی کی مشہور ڈاکٹر شیلوا وائل کی تاریخی کتاب (ہندوستان کی یہودی وراثت) میں ایسٹر کا مقالہ شریک کیا گیا۔ ایسٹر ڈیوڈ ساری دنیا کی ادبی کانفرنسوں میں ہندوستان کی نمائندگی کرتی رہی ہیں۔ آخری کانفرنس جس میں آپ شریک ہوئیں وہ تھی برطانیہ میں منعقد جنوبی ایشیا کی خاتون ادیباؤں کی کانفرنس !۔
ایسٹر ڈیوڈ ایک ممتاز صحافی بھی ہیں۔ آپ برابر لکھتی رہی ہیں، اور مختلف گجراتی جرائد کے لئے۔ سنگتراشی اور مصوری پر U.G.C کی ڈاکو مینٹری فلموں کی اسکرپٹس بھی لکھتی رہی ہیں۔ احمد آباد میں مقیم ایسٹر ڈیوڈ شریک حیات ہیں ایک فرانسیسی کی اور ماں ہیں دو اولادوں کی، ایک بیٹی، ایک بیٹا۔ امرتا اور روبن!۔
ایسٹر ایک ایسی حساس افسانہ نگار رہیں جس نے اپنے نسلی اور تہذبی پس منظر، ہندوستان کی رنگارنگی، گجرات کی مذہبی کشیدگی اور عورتوں کے سنجیدہ مسائل کا گہرا اثر قبول کیا ہے جو ان کی ادبی تخلیقات میں صاف جھلکتا ہے۔ ایسٹر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کی ہر تخلیق سوانح حیات ہی محسوس ہوتی ہے۔ افسانے اور حقیقت میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ قاری کو موقع فراہم کرتی ہیں ایک ہندوستانی یہودی کی نظر سے دنیا کو دیکھنے کا۔ ایسٹر نے ہمیں متعارف کرایا ہے ہندوستان کے انسانی سمندر میں چھپی ہوئی ننھی یہودی ملت سے، اس کی اقدار سے، اس کے سماجی تانے بانے سے، اس کی تہذیب و ثقافت سے، اس کے مسائل سے، اس کی فکروں سے۔ ایسٹر کی تحریر تحریک دیتی ہے عورت کو ظلم و زیادتی سے لڑنے کی اور مرد کو دریچہ فراہم کرتی ہے عورتوں کی زندگی میں جھانکنے کے لئے۔
ایسٹر کی تخلیقات دنیا کو ایک نیا زاویہ دیتی ہیں، یہودیوں کو دیکھنے کے لئے اور ہمیں راغب کرتی ہیں سوچنے کے لئے!۔
ایسٹر کا پہلا ناول کہانی ہے احمد آباد کی ایک یہودن کی زندگی کی، داستان ہے احمد آباد کے ایک یہودی گھر کی، عورتوں کی تین پیڑھیوں کی، تعارف ہے احمد آباد کے یہودی سماج کا، بیورا ہے اپنی الگ یہودی شناخت قائم رکھنے کی کوششوں کا، بیانیہ ہے ہندوستانی یہودیوں کی تہذیب اور ثقافت پر منڈلاتے خطروں کا!۔
اپنے والد، عالم گیر شہرتوں کے مالک، جانوروں کے ڈاکٹر، قدم شری روبن ڈیوڈ کے قائم کئے ہوئے چڑیا گھر کی بغل کے مکان میں ایسٹر کا بچپن گزرا۔ ایسٹر کو تبھی سے انس ہے جانوروں سے جو ان کے دوسرے ناول میں کچھ اہم کرداروں کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں، انسانوں کے شانہ بشانہ، جیسے گنگا رام (طوطا)، کیا (مور) اسٹیلہ (سارس)، شوا (بیل)، وغیرہ۔ اس میں کچھ سچے واقعات کا بھی ذکر ہے جیسے ہندوستان کے دو بڑے وزیروں (نہرو اور اندرا) کے احمد آباد کے چڑیا گھر کے دورے اور چڑیا گھر کی بنیاد رکھنے والے، ایسٹر کے والد، ڈاکٹر روبن ڈیوڈ سے ان کی ملاقاتیں، جنہیں 1974ء میں ’’پدم شری‘‘ کا اعزاز ملا، کے میدان میں، ان کی ناقابل فراموش خدمات کے لئے!۔ لیکن کا بنیادی مزاج تاریخی ہے۔ یہ دو سو سال کے عرصے میں ایک بینی اسرائیل یہودی خاندان کی پانچ نسلوں کی طویل داستان ہے، جو 19ویں صدی میں کونکن کے ساحل پر علی باغ کے گاؤں ڈانڈ سے شروع ہوتی ہے اور جدید احمد آباد پر ختم ہوتی ہے۔ ڈانڈو ہی کو نکنی گاؤں ہے جس سے ایسٹر ڈیوڈ کے بینی اسرائیل بزرگوں نے پہلی مرتبہ ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھا، جب ان کا جہاز ڈوب گیا۔ یہ بینی اسرائیل یہودی اپنے مذہبی عقیدے پر تو قائم رہے مگر پوری طرح ہندوستانی طرز زندگی میں ڈھل گئے، یہاں تک کہ مراٹھی نام بھی اپنا لئے۔ 1947ء میں ہندوستان کی آزادی کے وقت ہندوستانی یہودی آبادی تھی 25000، جس میں تقریباً 20000 مہاراشٹر کی اسی بینی اسرائیل ملت کے افراد تھے۔ آج یہ آبادی گھٹ کر 5271 رہ گئی ہے جس میں تقریباً 5000 بینی اسرائیل ہیں۔ آبادی میں یہ کمی ان کے بڑے پیمانے پر اسرائیل چلے جانے کے نتیجے میں آئی!۔
میں مختلف کرداروں کی کہانیوں کے ساتھ ساتھ برٹش فوج کے ایک ہندوستانی یہودی سپاہی کی کشمکش بھی ہے جسے اپنی ملازمت کی مجبوری کے تحت شیر میسور ٹیپو سلطان کے خلاف لڑنا پڑ رہا ہے، جن کے لئے وہ بے پناہ عقیدت رکھتا ہے۔ ایسٹر ڈیوڈ کا ماننا ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں میں مسلسل رابطہ نہایت ضروری ہے ۔ کتاب ایسٹر، ایسٹر کے ناول کا دلچسپ نام ہے صرف اس لئے نہیں کہ خود ان کا نام ایسٹر ہے بلکہ اس لئے بھی کہ بائبل کے ایک مخصوص حصے کو بھی Book of Esther کہا جاتا ہے!۔ ایسٹر ڈیوڈ کی 21 غیر معمولی کہانیوں کا مجموعہ جھانکتا ہے ہندوستانی عورت کی زندگی میں!۔
اپنی اسرائیلی جڑوں کی تلاش میں ایسٹر ڈیوڈ اسرائیل گئیں لیکن ہندوستان سے دور، اپنے شہر احمد آباد سے دور، ان کا جی نہ لگا اور وہ جلد ہی واپس لوٹ آئیں۔ اسرائیل میں انہوں نے دنیا کے مختلف حصوں سے آئے یہودیوں سے ان کے اوپر ہوئے مظالم کی کہانیاں سنیں۔ ایسٹر نے محسوس کیا کہ ان یہودیوں کے لئے تو اسرائیل ہجرت کرنا ایک بہتر فیصلہ تھا، لیکن خود انہیں اس ہجرت کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ دو ہزاربرس سے ان کی ملت ہندوستان میں سکون و قرار کے ساتھ رہ رہی تھی۔ ہندوستان دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جہاں یہودیوں کے ساتھ کبھی کوئی زیادتی نہیں ہوئی۔ ایسٹر کو ہندوستان سے عشق ہے وہ اس دھرتی سے دور نہیں رہ سکتیں:
بقول انور ندیم
ایسا تو کوئی دیش زمانے میں نہیں ہے
ہر دین اسی خاک پہ صدیوں سے مکیں ہے
دنیا کا وطن تو یہی ایک زمیں ہے
کہتے ہیں جسے ہند، وہی میرا وطن ہے!
نورس جاٹ آفریدی

ممبئی حقیقت کی بانہوں میں


دسمبر 1911ء میں بادشاہ جارج پنجم اور ملکہ میری کے ہندو دورے کی یاد میں جب ممبئی کے گورنر لارڈ سڈنہیم کی تجویز پر بمقام اپالو بندرگاہ گیٹ وے آف انڈیا کی تعمیر شروع ہوئی تو ہندوستان کی تین یہودی ملتوں میں سے ایک، بغدادی ملت کی محترم شخصیت سر جیکب سسون نے آٹھ لاکھ روپے مہیا کئے، جس سرمائے سے اس شاندار عمارت کی تعمیر ممکن ہو سکی۔ بروز چار دسمبر 1924ء ہندوستان کے اکلوتے یہودی وائسرائے لارڈ ریڈنگ نے اسکارسم اجراء کیا اور 11 نومبر 2003ء کے روز یہ حسین اور شاندار عمارت اس نوجوان کے سامنے تھی جسے ہندوستانی یہودیوں اور ہندوستان میں اسرائیل کے گم قبیلوں پر اس کی تحقیق یہاں لے آئی تھی!۔
اس دن شام کو میں گیٹ وے سے کف پریڈ جہاں میں مقیم تھا، کولابہ مارکیٹ گے گزرتا ہوا واپس لوٹا۔ میں نے محسوس کیا کہ بازار میں زیادہ تر شاندار دکانیں گجراتی مسلمانوں اور پارسیوں کی تھیں، وہیں بازار کے بیچوں بیچ ایک بلند دروازے پر لکھا تھا ’کسر و باغ (خسرو باغ) پارسی کالونی، مجھے بتایا گیا کہ یہ ممبئی کی سب سے بڑی پارسی کالونی ہے۔ میں بہت دیر تک سڑک پار ٹھیک کالونی کے دروازے کے سامنے کھڑا رہا، اسے غور سے دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ کیا صورت نکلے کہ میں دروازے میں داخل ہو سکوں اور زندگی میں پہلی بار کوئی پارسی گھر دیکھ سکوں۔ لمحات میں کتنی ہی اہم پارسی شخصیات کے نام میرے ذہن میں روشن ہوتے چلے گئے جیسے ہومی، بھابھا، دادا بھائی، نورو جی، فیروز شاہ مہتا، زوبن مہتا، جنرل مانک شاہ، جے آر ڈی ٹاٹا، رتن ٹاٹا، آدی گودریج، اٹارنی جنرل سوراب جی، پرویز دمامیہ، سہراب مودی، روہنٹن مستری، شامک ڈارو نانی پالکی والا، سونی تاراپور والا، عادل جوسے والا، پرسس کھمباٹا، ایلک پدمسی، کائیڈاد گستاد، پریزاد زورابین، پیناز مسانی، بیجان دارو والا، گولی دارو والا، ارد شیر ایرانی، ڈیزی ایرانی ہنی ایرانی، ارونا ایرانی، جے بی ایچ واڈیا اور نسلی واڈیا، باممے ڈائنگ کے مالک اور محمد علی جناح کے حقیقی نواسے۔ مزے کی بات ہے کہ خالق پاکستان کی اولادیں پاکستان میں نہیں، ہندوستان میں ہیں اور عقیدے سے مسلمان نہیں پارسی ہیں!۔
ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی ان کی اکلوتی اولاد تھیں اور یہی صورت پاکستان کے پہلے گورنر جنرل جناح کے ساتھ بھی تھی جن کی صاحب زادی ان کی اکلوتی اولاد تھیں۔ دونوں کی بیٹیوں نے پارسیوں سے شادی کی۔ اندرا گاندھی کے شوہر تھے فیروز گاندھی، جن کے دو بیٹے ہوئے راجیو گاندھی اور سنجے گاندھی۔ اس عظیم پارسی خاندان کی تیسری نسل ہے، راجیو گاندھی کی دو اولادیں، پرینکا گاندھی اور راہل گاندھی اور سنجے گاندھی کے صاحب زادے ورون فیروز گاندھی۔ اس اعتبار سے ہندوستان کا ایک وزیراعظم نسلاً پارسی تھا!۔
اگلے دن کے دورے کی شروعات میں نے یہودی کلب سے کی۔ یہ کلب 137 مہاتما گاندھی روڈ پر ایک پارسی عمارت جیرو بلڈنگ کی تیسری منزل پر تھا۔ وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ کلب ہمیشہ کے لئے بند ہو چکا ہے۔ یہ کلب 1938ء میں قائم ہوا تھا، یہاں مختلف یہودی تنظیموں اور اداروں کی تقاریب منعقد ہوا کرتی تھیں۔ یہ کلب اپنے ممبران کو کاشیر کھانا بھی فراہم کیا کرتا تھا، کاشیر کھانے سے مراد ہے وہ کھانا جو یہودی کسوٹیوں پر کھرا اترے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا مسلمانوں کا کھانا۔ یہودیوں کو بھی انہی چیزوں سے پرہیز ہے جن سے مسلمانوں کو، سوائے شراب کے پر یہودیوں کے یہاں ایک اضافی سختی ہے یہودی کبھی بھی بیک وقت گوشت اور دودھ یا دودھ سے بنی کوئی چیز نہیں لیتے۔ وہ دونوں کے درمیان کم سے کم تین گھنٹے کا فاصلہ ضرور رکھتے ہیں۔ بعض یہودی گھروں میں تو گوشت اور دودھ سے بنی چیزوں کے لئے برتن بھی الگ الگ ہوتے ہیں!۔
میرا اگلا پڑاؤ یہودیوں کی عبادت گاہ ایتز ہائم پرئر ہال تھا۔ عبرانی نام ’ایتز ہائم‘ کے معنی ہیں زندگی کا پیڑ۔ اس عبادت گاہ کو 1888ء میں قائم کیا تھا یہودی تعلیم گاہ الی کدوری ہائی اسکول کے پریسڈنٹ، سیکرٹری اور ٹریزرر ہائم سیموئل کیہمکر نے۔ کیہمکر ایک عظیم یہودی تاریخ دان تھے۔ جنہوں نے ہندوستان کی سب سے بڑی یہودی ملت بنی اسرائیل (یہودی اس کا تلفظ بینی اسرائیل کرتے ہیں) کی تاریخ لکھی (ہندوستان کا یہودی ادب، امکان نومبر 3ء) ان کا ماننا ہے کہ بینی اسرائیل یہودی 175 برس قبل مسیح ہندوستان آ کر بسے۔ وہ سمجھتے تھے کہ بینی اسرائیل ملت کا تعلق اصل میں اسرائیل کے دس گم قبیلوں میں سے ایک ’لیوئی‘ سے ہے۔ ان کی یہ بات سچ ثابت ہوئی جب لندن یونیورسٹی کے پروفیسر ٹیوڈر پارفٹ کی جینیاتی تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ ہندوستان کی بینی اسرائیل یہودی ملت اصل میں حضرت موسی کے بڑے بھائی آران کے خاندان کی تازہ ترین پشت ہے۔ ڈاکٹر پارفٹ وہی پروفیسر ہیں جنہوں نے ناچیز کی دعوت پر نومبر 3ء میں ملیح آباد کا دورہ کیا اور خاکسار کے ساتھ مل کر پچاس آفریدی پٹھانوں کے ڈی این اے نمونے یکجا کئے ان کے قدیم اسرائیلی پس منظر پر تحقیق کی خاطر۔ (جوش کے نسلی پس منظر پر علم و تحقیق کی چکاچوند، امکان، فروری3ء)۔
ایتز ہائم پرئر ہال ممبئی کے ایک خالص مسلم محلے عمر کھاڑی میں تھا۔ ممبئی میں تقریباً سبھی یہودی عبادت گاہیں اور ان کی بستیاں مسلم محلوں میں ہیں۔ ممبئی کے مسلمانوں اور یہودیوں نے مذہبی ہم آہنگی کی ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ ہندوستان میں یہودیوں کی کل 34 عبادت گاہیں ہیں جن میں سے 9 ممبئی میں ہیں، ممبئی کی زیادہ تر یہودی عبادت گاہوں کے محافظ یہودی نہیں مسلمان ہیں، ممبئی میں یہودیوں کی چار علمی درس گاہیں ہیں جن میں زیادہ تر طلباء مسلمان ہیں، اسرائیل جہاں مسلمانوں اور یہودیوں میں روز ٹکراؤ ہوتا ہے اس کے بالکل برعکس ہے ممبئی میں صورت حال۔ جہاں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان لطیف ترین رشتے ہیں۔ سوائے ممبئی کے آج پوری دنیا میں مسلمانوں اور یہودیوں میں جو کشیدگی پائی جاتی ہے وہ ہمیشہ نہیں تھی، اسپین میں مسلم حکومت کی تین صدیوں کو یہودی اپنی تاریخ کا سنہرا دور مانتے ہیں۔ سن 711ء میں مسلمانوں نے اسپین پر اپنی حکمت کی جو 2 جنوری 1492ء تک برقرار رہی۔ سن 900ء سے 1200ء کے وقفے کو یہودی اپنا عالی شان وقت مانتے ہیں، جیسے ہی اسپین میں مسلم حکومت کا خاتمہ ہوا عیسائیوں نے یہودیوں کو اسپین اور پرتگال سے نکال باہر کیا، ان مصیبت زدہ یہودیوں کو پناہ دی شمالی افریقہ اور ترکی کے مسلمانوں نے۔ جس زمانے میں یہودی یورپ میں شہروں کی سرحدوں سے باہر رہنے کے لئے مجبور تھے، مسلم حکومتوں میں وہ اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز تھے!۔
بغدادی یہودیوں کی عبادت گاہ ماگین ڈیوڈ سنیگاگ میری اگلی منزل تھی۔ اس عبادت گاہ کے سمواس (چوکیدڈار سے بلند عہدہ) تھے، محمد حسین پٹھان، ایک پنج وقتہ نمازی، روزے دار اور ایک اچھے مسلمان۔ ان سے ہم کلام ہونے پر معلوم ہوا کہ وہ یہاں 30 برس سے ملازم ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ عبادت گاہ کی تمام تر ذمہ داریاں ان کے سپرد تھیں۔ میرے اصرار کرنے پر انہوں نے مجھے مقدس توریت کے اسکرولس بھی دکھائے، ’آران ہاکودیش‘ سے نکال کر۔ آران ہاکودیش سے مراد ہے وہ لکڑی کی الماری جہاں انہیں حفاظت میں رکھا جاتا ہے!۔
یہودی عبادت گاہ میں کوئی تصویر یا مجسمہ نہیں ہوتا۔ یہودی مذہب بت پرستی کا سخت مخالف ہے۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام ایک ہی سلسلے کی تین کڑیاں ہیں جس میں سب سے پرانا ہے یہودی مذہب جو چار ہزار سال پرانا ہے عیسائی مذہب جو دو ہزار سال پرانا ہے اور اسلام ایک ہزار چار سو سال پرانا ہے، ان تینوں کا عقیدہ یہی ہے کہ خدا ایک ہے یہودی عبادت گاہ کو سنیگاگ کہا جاتا ہے۔ لفظ سنیگاگ، عبرانی لفظ بیت ہاکینیست کا یونانی ترجمہ ہے جس کے معنی ہیں گوشہ ملاقات!۔
ممبئی میں ہندوستانی یہودیوں کی بغدادی ملت کے دو سنیگاگ ہیں جن میں زیادہ پرانا ماگین ڈیوڈ سنیگاگ ہیں، اسے 1861ء میں بغدادی ملت کی نمایاں شخصیت ڈیوڈ سیسون (1792-1864) نے تعمیر کرایا۔ ڈیوڈ سیسون 1832 میں اپنا وطن بغداد چھوڑ کر ممبئی میں آ بسے۔ ہندوستان میں اپنے قیام کے 32 سالوں میں ڈیوڈ نے دو شہروں ممبئی اور پونا پر ایسی گہری چھاپ چھوڑی کہ اس کی نشانیاں آج تک دیکھی جا سکتی ہیں، جیسے ممبئی میں ڈیوڈ سیسون انڈسٹریل انسٹیٹیوٹ اینڈ ریفورمیٹری ڈیوڈ سیسون کتب خانہ، جیجاما تاادیان کا گھنٹہ گھر، ماگین ڈیوڈ سنیگاگ اور پونا میں سیسون ہسپتال اور لال دیول سنیگاگ!۔
سر جے جے روڈ، بائی کلہ میں ماگین ڈیوڈ سنیگاگ بھی ہندوستان میں باقی بغدادی سنیگاگوں کی ہی مانند یوروپین طرز تعمیر سے متاثر ہے۔ 1830ء کی دہائی میں عرب دنیا سے بڑی تعداد میں یہودی ممبئی اور کولکتہ میں آ کر بسے۔ جو بغدادی کے نام سے جانے گئے، وہ ہندوستان آئے تو عربی بولتے ہوئے پر گئے انگریزی بولتے ہوئے۔ برٹش راج کے دوران انہوں نے پوری طرح سے انگریزی تہذیب میں ڈھلنے کی کوشش کی اور 1947ء میں ہندوستان کی آزادی کے بعد انہوں نے بھی انگریزوں کے ساتھ بڑی تعداد میں ملک چھوڑ دیا، برطانیہ، امریکہ، کناڈہ، آسٹریلیا اور اسرائیل کے لئے۔ یہودیوں کی اسی ملت سے متعلق تھیں اردو شاعر سوز ملیح آبادی کی والدہ، ہندی فلموں کی مشہور اداکارہ ریحانہ، جو بعد میں پاکستان چلی گئیں (تلاش، امکان، مارچ 3ء)!۔
ماگین ڈیوڈ سنیگاگ کے ہی احاطے میں یہودیوں کا ایک اسکول، جیکب سیسون ہائی اسکول موجود ہے۔ اس اسکول کو سرجیکب الیس سیسون نے 1903ء میں بنوایا۔ اس انگلش میڈیم یہودی اسکول کی پرنسپل ایک عیسائی ہیں اور زیادہ تر طلباء مسلمان۔ یہ ہندوستان کا اکلوتا ایسا اسکول ہے جہاں عبرانی زبان کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہاں کے نصاب میں یہودی تاریخ اور یہودی مذہب جیسے مضامین بھی ہیں!۔
ماگین ڈیوڈ سنیگاگ کے بالکل پیچھے ہے ایلیشا ازرا ازیکیل سیسون ہائی اسکول ۔ ان دونوں یہودی اسکولوں کی دیکھ ریکھ سیسون چیرٹی ٹرسٹ کرتا ہے۔ ازرا ازیکیلا اسکول میں طلباء کی تعداد 645 اور استادوں کی تعداد 25۔ یہاں زیادہ تر ناگپاڑہ علاقے کے ہی مسلم بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہندوستان میں عیسائیوں کے سوا اگر کسی اقلیتی فرقے نے انگریزی تعلیمی میدان میں اپنی نمایاں حیثیت بنائی ہے تو وہ یہودی ہیں۔ آج احمد آباد میں زیادہ تر معیاری انگریزی اسکول یہودیوں کے ہیں!۔
ایلیشا ازرا ازیکیل سیسون ہائی اسکول سے میں اگرری پاڑہ میں ۸۔ محمد شہید ماگ پہ مقیم ماگین ہاسیدیم سنیگاگ گیا۔ سنیگاگ میں اس وقت تالہ لگا ہوا تھا، میں نے دیکھا عبادت گاہ کے ہی احاطے میں کچھ یہودی فلیٹس تھے۔ ایک فلیٹ کا دروازہ کھلا تھا جہاں تین عورتیں بہت معمولی ساڑھیوں میں ملبوس فرش پر بیٹھی تھیں۔ ان عورتوں کو دیکھتے ہی یہ اندازہ ہوگیا کہ وہ معاشی اعتبار سے کمزور ہیں۔ میں نے پوچھ کر تصدیق کر لی کہ وہ بینی اسرائیل یہودی ہیں۔ یہ میرے لئے ایک حیرت کا مقام تھا مجھے اس کی تو خبر تھی کہ ہندوستان میں کچھ یہودی مالی اعتبار سے غریب بھی ہیں پر یہ نہیں سوچا تھا کہ ان کا طرز زندگی ایسا غیر معیاری ہوگا۔ دنیا میں سب سے زیادہ دولت مند اور تعلیم یافتہ قوم یہودی ہے جبکہ 18 صدیوں تک یہودیوں کے لئے تعلیمی درس گاہوں کے دروازے بند رہے۔ دنیا کی 90 فیصد ہیرے کی کانوں کے مالک یہودی ہیں جبکہ دنیا کے تقریباً ہر ملک سے سوائے ہندوستان کے، یہودیوں کو کھڈیڑا گیا۔ ہالی ووڈ کی زیادہ تر فلم کمپنیوں کے مالک یہودی ہیں، نیو یارک ٹائمز ایک یہودی اخبار ہے۔ روئٹرس ایک یہودی نیوز ایجنسی ہے اور سی این این ایک یہودی نیوز چینل ہے۔ نوبیل انعامات کی ایک صدی میں (1902-2000) ہندوؤں (دنیا کی آبادی میں تقریباً 13.02%) نے 6 اور مسلمانوں (دنیا کی آبادی میں (19.06% نے 8 نوبل انعامات جیتے، وہیں صرف ایک کروڑ 40 لاکھ یہودیوں (دنیا کی کل آبادی میں 0.2%) نے 138 نوبیل انعامات حاصل کئے۔؂
زمین جس کے تصور میں سانس لیتی تھی
وہ ایک پیکرِ نایاب کیا یہودی تھے
ان غریب بینی اسرائیل خواتین نے مجھ سے مزید گفتگو کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ میں حظان (یہودی مولوی) کا انتظار کروں کچھ ہی دیر میں ماگین ہاسیدیم کا سمواس احاطے میں داخل ہوا میں نے جب بات بہ زبانِ انگریزی شروع کی تو اس نے سخت ترین چہرے کے ساتھ مجھے ہوشیار کرتے ہوئے کہا ’’انگریزی نہیں، مراٹھی یا ہندی‘‘۔ موصوف کا نام حانوخ باروخ بانولکر تھا۔ صرف دو جماعت تک پڑھے تھے اور پیشے پتائی کرنے والے تھے، عمر تھی 68 سال۔ بانولکر نے کہا کہ میں سنیگاگ کے اندر حظان کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتا۔ کچھ ہی دیر بعد انتظار ختم ہوا اور حظان ڈینیل سالومن واسکر تشریف لائے۔ ممبئی پورٹ اتھارٹی ڈاکس کے ریٹائرڈ ڈپٹی سپریٹنڈنٹ 61 سالہ واسکر تھا نے سے روز سنیگاگ آتے ہیں، بحیثیت ایک حظان (یہودی مولوی)۔ ہندوستان میں ممبئی کے بعد سب سے زیادہ یہودی آبادی تھانے میں ہے۔ 1991ء کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں کل 5271 یہودی ہیں جس میں سے 2160 ممبئی میں رہتے ہیں اور 1600 تھانے میں۔ واسکر کی دونوں بیٹیوں کی شادی اسرائیل میں جا بسے ہندوستان کی بینی اسرائیل ملت کے لڑکوں سے ہوئی ہے۔ ان کا اکلوتا بیٹا بھی وہیں ہے پر واسکر آج تک اپنے کو ہجرت کے لئے آمادہ نہ کر سکے۔ وہ اسرائیل کئی بار گئے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل کی معیاری زندگی ہندوستانی معیار سے کہیں زیادہ بلند ہے پر وہ ہندوستانی مٹی سے الگ نہیں ہونا چاہتے۔ جہاں ان کے بزرگ دفن ہیں۔ ان کی ذہنی کیفیت کی اچھی ترجمان ہے انور ندیم کی ’’ایک شرط‘‘:
میری طبیعت
اپنے سماج
اپنے دیش سے اوبھ چکی ہے!
میں ہندوستان سے کہیں دور
بہت دور جانا چاہتا ہوں
مگر ایک شرط کے ساتھ!
گنگا کی لہریں اور ہمالیہ کی اونچائیاں
میرے ساتھ ہوں گی
یہاں کے سنگیت کی آوازیں
اور رقص کی تمام جنبشیں
میرے ساتھ جائیں گی!
میں ہندوستان سے کہیں دور، بہت دور
جانے کے لئے بالکل تیار ہوں
مگر اسی شرط کے ساتھ!
واسکر نے مجھے ایک یہودی شادی کا دعوت نامہ دیا، دلہن یہودی تھی دلہا ہندو، جس نے اپنی معشوقہ کی خاطر یہودی مذہب قبول کر لیا تھا، یہودی مذہب قبول کرنا اتنا آسان نہیں جتنا اسلام یا عیسائی مذہب قبول کرنا ہے۔ یہودی مذہب اسلام اور عیسائیت کے برخلاف تبلیغی مذہب نہیں، یہودی اپنے مذہب کے ماننے والوں کی تعداد میں اضافے کے لئے کوئی جتن نہیں کرتے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ نسلاً کسی غیر یہودی کے لئے یہودی بننا آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی مذہب بنیادی طورپر بنی اسرائیل یعنی حضرت یعقوب کی اولادوں تک ہی محدود رہا جبکہ اسلام اور عیسائیت کا پیغام ساری دنیا کی تمام نسلوں اور قوموں تک پہنچا!۔
ماگین ہاسیدیم ایک شاندار سنیگاگ ہے۔ ممبئی میں سب سے زیادہ تعداد میں یہودی عقیدت مند اسی سنیگاگ میں آتے ہیں۔ اس کی تعمیر 1904ء میں مکمل ہوئی!۔ ماگین ہاسیدیم سے میں تفریت اسرائیل سنیگاگ دیکھنے 92 کلارک روڈ، جیکب سرکل، سات راستہ گیا۔ جہاں ایک انتہائی بدشکل یہودن نے میرا استقبال کیا۔ ہندوستان میں بینی اسرائیل دو فرقوں میں بٹ گئے۔ گورا اسرائیل اور کالا اسرائیل۔ کالا اسرائیل سے مراد وہ بینی اسرائیل یہودیوں کی اولادیں ہیں جنہوں نے مقامی عورتوں سے شادی کی۔ اس عورت کو دیکھتے ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ کالی اسرائیل ہے۔ وہ سنیگاگ کے ہی احاطے میں اپنے کنبے کے ساتھ ایک چھوٹے سے مکان میں رہتی تھی۔ اس نے فوراً ہی میرے لئے سنیگاگ کا تالہ کھول دیا جب میں نے حظان کے لئے پوچھا تو اس نے کہا کہ ’’نماز‘‘ کا وقت بس ہوا ہی جاتا ہے۔ حظان آتے ہی ہوں گے۔ ہندوستان میں یہودیوں نے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی شبداولی اپنا لی۔ بینی اسرائیل اپنی عبادت کو ’’نماز‘‘ اور عبادت گاہ کو ’’مسجد‘‘ کہتے ہیں۔ ممبئی میں مسجد نام کا ایک لوکل اسٹیشن بھی ہے۔ اس کا نام مسجد اصل میں کسی مسلم مسجد کی موجودگی کے باعث نہیں بلکہ ایک یہودی عبادت گاہ سنیگاگ کی وجہ سے ہے۔ 1923ء میں 35600 روپے میں تفیرت اسرائیل سنیگاگ عوام میں ’’کانڈ لیکرانچی مشد‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تفیرت سنیگاگ کے بالکل سامنے بھگان شِو کا ایک چھوٹا سا مندر ہے!۔
تفیرت سنیگاگ سے میں گھنی مسلم آبادی کے بیچوں بیچ بینی اسرائیل یہودیوں کی سب سے پرانی عبادت گاہ شارہا رہامین سنیگاگ دیکھنے گیا۔ اس سنیگاگ کی کہانی دلچسپ ہے۔ 1857ء کی غدر سے پہلے مومبے پریسیڈینسیکے آدھے افسران بینی اسرائیل یہودی تھے۔ 1783ء میں دوسری میسور جنگ کے دوران بیدنور میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہامبے کونٹن جینٹ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور بہت بڑے پیمانے پر کمپنی فوج کے سپاہیوں اور افسران کو قیدی بنا لیا گیا۔ ٹیپو سلطان نے تمام دشمن فوجی قیدیوں کو سزائے موت دی پر اپنی والدہ کے کہنے پر بین یاسرائیل فوجیوں کو بخش دیا اور 1784ء میں جنگ کے ختم ہونے پر انہیں آزاد کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی فوجی ٹکڑی میں ایک یہودی صوبے دار میجر سیموئیل ازیکیل دویکر (ساماجی ہاساجی وویکر) نے اپنی قید کے دوران قسم کھائی تھی کہ وہ اپنی رہائی پر شکرانے کے طورپر ایک عبادت گاہ تعمیر کرائے گا۔ دویکر نے 1796ء میں مانڈوی، ممبئی میں شارہا رہامین سنیگاگ بنوایا۔ شارہا رہامین کے معنی ہیں رحمت کا دروازہ۔ یہ سنیگاگ اسی سڑک پر ہے جس کا نام آج سنیگاگ کے خالق کے نام پرسیموئیل اسٹریٹ ہے!۔
اگلے دن جب میں ماہم میں ایس کیرمارگ پہ کاکڑ ادیوگ بھون کی عمارت میں جوئش کمیونٹی سینٹر پہنچا تو ایک ایسی یہودی حسینہ نے استقبال کیا جسے دیکھتے ہی بے ساختہ انور ندیم کی ایک یہودی ہم سفر یاد آ گئی:
’’سکندر آباد کا ریلوے پلیٹ فارم، جیسے کشمیر میں زعفران کا کھیت۔ دیش بھر کے سندر، کومل چہروں کا میلا۔ ٹرین میں ادھر ادھر ایک دو نہیں کئی روشن چہرے اور ہم پانچ شاعروں کی سیٹوں پر پہلے سے ایک فرشتہ براجمان۔ ندیم کو یہ احساس کہ؂
نگاہ برق نہیں، چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
فرشتہ، نام سے سائرا۔ شہریت سے انگلستانی۔ مذہب سے یہودی۔ پیشے سے ڈاکٹر۔ بدن سے پھول۔ ہونٹ سے شہد۔ آنکھ سے جذبہ۔ چہرے سے کتاب۔ اگنی کی طرح روشن اور ناریل کے پانی کی پاک۔ ہونٹ کھولے تو لگے اپنا ساتھی۔ چپ رہے تو لگے اپنی آتما۔ پاس بیٹھے تو جی کا قرار۔ کہیں اٹھ کے جائے تو سب کی آنکھوں میں انتظار بھر کر۔ پرانی زبانوں کے مذہبی گیت، جیسے اس کی آواز کے ہرن کی جادوئی آنکھ۔ اپنی دھنوں میں دوسروں کی شرکت کو پسند کرنے والی اور رازالہ آبادی کے ترنم کو غور سے سننے کچھ سمجھنے اور برتنے والی ایک پاکیزہ روح۔‘‘
انور ندیم، جلتے توے کی مسکراہٹ، ہم لوگ پبلیشرز لکھنؤ 1985ء صفحات: 136-37)
اگلے دو دن میں ممبئی کے مختلف مقامات پر گیا جیسے شارے راسون سنیگاگ 90، ٹنٹن پورہ وڈ؍ راڈیف سلوم سنیگاگ 23، سوسیکس رواڈ، وکٹوریہ گارڈینس کے قریب؍ ڈیوڈ سیسون انڈسٹریل اینڈ رفارمیٹری انسٹی ٹیوشن ماٹنگا، ایلفنسٹن ٹیکنیکل ہائی اسکول مہاپالکا مارگ؍ سرایلی کدوری اسکول مزگاؤں؍ انسٹی ٹیوٹ آف سائنس میڈم کاکا روڈ فورٹ؍ مسینہ ہسپتال بائی کلہ؍ سرسیسون ڈیوڈ ہسپتال اور حیفکین انسٹی ٹیوٹ جو 1899ء میں پلیگ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی حیثیت سے قائم ہوا تھا۔ پر 1925ء میں اس کا نام عظیم یہودی سائنس دان ڈاکٹر والڈیمر حیفکن کے نام پر رکھ دیا گیا۔ ڈاکٹر حیفکن نے کالر اور پلیگ کی ویکسینیں ایجاد کیں۔ میں ممبئی کے تیسرے سب سے بڑے کتب خانے ڈیوڈ سیسون لائبریری بھی گیا۔ یہ بامبے یونیورسٹی کے قریب اور جہانگیر آرٹ گیلری کے بالکل سامنے ہے۔ مامبے یونیورسٹی سے گزرتے وقت مجھے ہندوستان کی جدید انگریزی شاعری کے فرد اول پدم شری نیسم ازیکیل (ایک بینی اسرائیلی یہودی) کا خیال آیا جو یہاں انگریزی کے پروفیسر تھے۔ یہیں قریب میں تھی بغدادی یہودیوں کی شاندار عبادت گاہ کینیست ایلیاہو سنیگاگ اس سنیگاگ اور سیسون لائبریری کے درمیان ایک وسیع چوک ہے جسے کالا گھوڑا کہا جاتا ہے۔ اس کا نام کالا گھوڑا اس لئے ہے کہ یہاں گھوڑے پر سوار شاہ ایڈورڈ VII کا تانبے کا ایک مجسمہ تھا اور گھوڑے کی رنگت سیاہ تھی، یہ مورتی ایک 14 فٹ اونچے چبوترے پر تھی اور ود مورتی کا قد تھا 12.9 فٹ۔ اب اس مجسمے کو وکٹوریہ گارڈینس منتقل کر دیا گیا۔ اس مورتی کو 1878ء میں عظیم یہودی شخصیت سرالبرٹ سیسون نے شہر کو نذر کیا تھا!۔
میری اس درمیان جتنے یہودیوں سے ملاقات ہوئی سب نے قسمیں کھا کے یہی کہا کہ انہوں نے ہندوستان میں اپنے لئے کبھی کوئی تعصب محسوس نہیں کیا۔ یہ ایک قیمتی انکشاف تھا کیونکہ دنیا میں ہر جگہ یہودیوں پر بے پناہ ظلم ہوئے ہیں۔ ہٹلر نے تو اپنے وقت کی ایک تہائی یہودی آبادی کا صفایا ہی کر ڈالا۔ تاریخ میں یہودی عالمی دلت نظر آتے ہیں۔؂
زہر پھونکا کریں مسخرے رات دن، جھوٹ اگلا کریں یہ کتابیں تو کیا
یہ حقیقت رہے گی ہمیشہ اٹل
خون اس کا ہمیشہ بہایا گیا خون جس نے کسی کا بہایا نہیں
15 نومبر 3ء ممبئی میں میری آخری شام تھی۔ میں کولابہ کے بازار میں اپنے لئے پارسی ٹوپی تلاش کر رہا تھا، اپنی دلچسپی کے باعث۔ تبھی کسروباغ پارسی کالونی کے وسیع دروازے پر مجھے ایک سن رسیدہ خاتون نظر آئیں۔ میں محترمہ کے قریب جیسے یہ جا کر بولا میں نے محسوس کیا کہ وہ سہم گئیں۔ جس کے نتیجے میں میں گھبرا گیا کہ کہیں وہ گر نہ جائیں۔ وہ اس وقت فٹ پاتھ پر کسی دکان دار سے کچھ خرید رہی تھیں۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ کیا وہ کوئی ایسی دکان جانتی ہیں جہاں مجھے پارسی ٹوپی مل سکے۔ اس کے جواب میں وہ مجھے کسرو باغ میں اپنی بیٹی مہر کے فلیٹ پر لے گئیں۔ جہاں ہماری کافی دیر تک گفتگو ہوئی۔ 78 سالہ گول (کل) جمشید ڈرائیور کی پیدائش کراچی میں ہوئی جہاں 1947ء میں اپنی شادی اور تقسیم ملک کے بعد وہ ممبئی میں آ بسیں لیکن تب سے لے کر آج تک کوئی ایسا سال نہیں گیا جب وہ اپنے عزیز و اقارب سے ملنے پاکستان نہ گئی ہوں (سوائے ہند و پاک جنگوں کے وقت)۔ مسز ڈرائیور ایک جہاں گرد خاتون تھیں جو تخت جمشید کی زیارت کے لئے ایران بھی جا چکی تھیں۔ ایران میں سرکاری ذرائع کے مطابق 91 ہزار اور غیر سرکاری ذرائع کے مطابق 30 ہزار پارسی رہتے ہیں۔ زیادہ تر نے دیہات میں سکونت اختیار کر رکھی ہے، ہندوستان میں پارسی آبادی تقریباً 70 ہزار ہے ہندوستان میں پارسیوں کی معاشی اعتبار سے وہی حیثیت ہے جو دنیا میں یہودیوں کی۔ ایسا اندازہ ہے کہ 1850ء تک آدھا ممبئی پارٹیوں کی ملکیت بن چکا تھا، ہندوستان کے 70 فیصد پارسی ممبئی میں رہتے ہیں۔ مسز ڈرائیور نے بتایا کہ پاکستان میں تین ہزار پارسی ہیں جو ہندوستانی پارسیوں سے بھی زیادہ خوشحال ہیں چونکہ تعداد میں کم ہیں اس لئے ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہیں اگر کسی پر مصیبت آتی ہے تو پوری ملت مدد کرتی ہے، ہندوستان کی پارسی ملت ایک مرتی ہوئی قوم ہے جس کا پیدائش کا در موت کے در سے کم ہے۔ مسز ڈرائیور اس بات سے بڑی حیرت زدہ ہوئیں کہ میں ایک ’’آگیاری‘‘ (پارسی عبادت خانہ) میں جانے میں کامیاب کیسے ہوگیا کیونکہ غیر پارسیوں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ مسز ڈرائیور نے مجھے پارسی حلوے اور ایک نہیں دو مختلف پارسی ٹوپیوں کے ساتھ رخصت کیا!۔
لوٹتے وقت میری نظر پڑی ایسٹر جنرل اسٹورل پر۔ مجھے دکان کے نام سے شک ہوا کہ کہیں یہ کسی یہودی کی تو نہیں۔ میرا شک صحیح نکلا پر دکان کے مالک موزز رافیل جوزف نے یہ کہہ کر میرا دل دہلا دیا کہ ’’آج ہماری دو عبادت گاہوں پر حملہ ہو گیا۔ زبردست بم دھماکے ہوئے‘‘ یہ سن کر میں بری طرح ڈر گیا۔ مجھے خیال گزرا کہ کہیں اب میں گرفتار نہ ہو جاؤں کیونکہ اپنے مسلم سر نیم کے ساتھ میں پچھلے چار دنوں سے یہودی عبادت گاہوں کا دورہ کر رہا تھا۔ سکون تب ملا جب انہوں نے بتایا کہ یہ واقعہ ممبئی میں نہیں ہزاروں کلومیٹر دور استنبول (ترکی) میں پیش آیا تھا۔ اگلے دن لکھنؤ کے لئے یشپک اکسپرس میں میں نے اس خبر کی تفصیل کو پڑھا اور ساری دنیا میں یہودیوں کے لئے پھیلی نفرت کے بارے میں سوچتا رہا!۔
نورس جاٹ آفریدی

ہندوستان کا یہودی ادب





ہندوستان کے یہودی ادب سے مراد ہے وہ ادب، جس کی تخلیق ہندوستانی یہودیوں نے کی، اور جو یہودیوں پر یا یہودی موضوعات پر مبنی ہے۔
یہ ادب بڑے پیمانے پر پانچ زبانوں میں ملتا ہے۔۔۔ اردو، فارسی، ہندی یا ہندوستانی، مراٹھی اور انگریزی۔
بھارت کے یہودی ادب کے تخلیق کاروں میں کچھ عالمگیر شہرت کی شخصیات پیدا ہوئیں، جیسے سرمد، نیسیم ایزیکیل اور ایستھر ڈیوڈ، اس ادب کی تخلیق کا طویل سلسلہ ہندوستان میں یہودیوں کے قیام کی کئی صدیوں پر مشتمل ہے۔ ہندوستان کا پہلا عظیم یہودی شاعر سرمد ہے (1590-1660)۔ ’’سرمد: انوکھی چلت پھرت کا کردار‘‘ (امکان، جون) سرمد کی فارسی رباعیات ہندوستان کی فارسی شاعری کی زینت ہے۔
سرمد گلہ اختصاری باید کرو
یک کارازیں دوکارمی باید کرو
یاجان برضائے دوست ممی بایدداد
یا قطع نظر زیاری باید کرو
سرمد کی شاگردی میں توریت کا عبرانی سے فارسی میں ترجمہ ہوا جو محسن الفانی کی ’’دبستانِ مذاہب‘‘ میں شامل کیا گیا۔
کوکن کے ایک سو بیالیس گاؤں میں تقریباً دو ہزار سال سے مقیم یہودیوں کی بنی اسرائیل ملت سے متعلق ایلوجی ناگاؤنکر (1690-1740) سرمد کی شہادت کے تیس برس بعد اور آج سے لگ بھگ تین سو برس قبل منظر عام پر ابھرے۔ ایلوجی نے بڑے پیمانے پر ہندوستانی اور مراٹھی میں رزمیہ اور لاونیں کہیں، جو آج بھی کوکن میں سنی جاتی ہیں۔
’’کربندگی صاحب کی وہ یارو! الف نام کو پچھاننا،
ایک نام ہے سچا الٰہی جس کے رستے جانا،
مارے اسرائیل تم نے سننا بندگی کرنا صاحب کی،
تین وقت کی نماز پڑھنا یاد رکھو اس کلمہ کی،
تین وقت کے کتنے مکان کہو نام و نشانی اس مکان کی،
اوضو نواز و ہر دم کرنا پاک نیت ہونا سب کی،
صاحب سے نمکر چلنا کر بھلی بری کو ڈرنا،
کلمہ کی پچھان رکھنا دو دن کا جگ میں جینا،
ایک نام ہے سچا الٰہی،
اسرائیل کی بیٹھ مجالس سنو خدا کی ایک بانی،
مجھے چھوڑ کے دوسری مورتی نہیں کرنا اپنے من کی،
ایک نام ہے سچا الٰہی روپ دل میں ہر دم گیانی‘‘
ایلو جی: گاگونکر
مراٹھی شاعری کی صنف لاونی کے ایک اور عظیم یہودی شاعر تھے، روبن جی عیسا جی ناگاؤنکر، جن کی پیدائش ممبئی میں انیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ہوئی۔ لاونی کے گایکوں کے دو گٹ ہوا کرتے تھے۔ ایک گٹ نسوانی جذبات کا ترجمان تھا۔ جسے ’’کلگی‘‘ گٹ کہتے تھے اور دوسرا مردانہ تیورں کا جو ’’تورا‘‘ گٹ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ روبن جی کلگی گٹ کے سردار تھے۔ ان دو گٹوں کے شعری مقابلوں کی محفلوں کو ’’مجالس‘‘ کہا جاتا تھا۔ پوری پوری رات شاعری میں سوال و جواب ہوتا تھا۔ لاونی بڑے پیمانے پر مزاحیہ شاعری ہے۔ روبن جی نے اپنی لاونیوں میں عبرانی الفاظ کا ایک نیا تجربہ کیا اور ان کی لاونیوں میں موضوعات اکثر یہودی ہوتے تھے۔ یہودیوں کے مذہبی ادب کو مراٹھی میں منتقل کرنے کا سہرا جاتا ہے جوزف ایزیکیل راجپورکر کے نام۔
ہندوستانی صحافت کے ابتدائی دور میں یہودیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ 8 ستمبر 1877ء کے دن روبن ابراہم کورلیکر نے ایک مراٹھی سہ ماہی ’’ستیہ پرکاش‘ نکالا، جو 27 جون 1884ء تک شائع ہوا۔ ستیہ پرکاش کے ساتھ ہی ایک اور یہودی سہ ماہی ’’اسرائیل آشرم‘‘ 30 ستمبر 1877ء کے دن منظر عام پر آیا۔ اس مراٹھی پرچے کے مدیر تھے، ڈیوڈھیام ویویکر۔ اس رسالے کے بارہ شمارے نکلے۔ یکم اپریل 1881ء کے روز تیسرا ہندوستانی یہودی سہ ماہی ’’اسرائیل‘‘ وجود میں آیا۔ اس کے مدیر تھے، سیمویل ہیام کوہیمکر۔ اسرائیل کا آخری شمارہ 16 فروری 1885ء کو نکلا۔ یہ سہ ماہی اینگلو جوئش ایسوسی ایشن کی امداد کے سہارے نکلا تھا۔ جب امداد رکی تو پرچہ کی اشاعت ہی رک گئی۔ ان پرچوں کے ساتھ ساتھ ایک اور یہودی سہ ماہی ’’نیر اسرائیل‘ نے مراٹھی صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔ اس کی اشاعت کے دو دور رہے۔ 5 اکتوبر 1881ء سے 13 نومبر 1885 تک اور پھر 6 جنوری 1893ء سے 28 فروری 1897ء تک۔ اسی درمیان ایک ہندوستانی یہودی ماہنامہ ’’بنی سرالائٹ‘‘ 3 دسمبر 1893ء سے شائع ہونا شروع ہوا۔
ہندوستانی یہودیوں کی بنی اسرائیل ملت کی تاریخ پر پہلی کتاب ’’ہسٹری آف دی بنی اسرائیل آف انڈیا‘‘ ہائن سیمویل کوہیمکر نے سن 1897ء میں لکھی، پر یہ شائع 1937ء میں ہی ہو سکی۔ زاؤنسٹ تحریک کے سفیر کی حیثیت یس جب ڈاکٹر ایمانیوال اولس وینگر (1888-1961)، 1936ء میں ہندوستان آئے تو انہیں یہ کتاب آنجہانی مصنف کے کنبہ سے ملی جسے انہوں نے اسرائیل میں شائع کرایا۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہندوستان کا ایک نمایاں ڈرامہ نویس ایک بنی اسرائیل یہودی تھا۔ جوزف ڈیوڈ پلوکر نے اردو اور مراٹھی میں کئی ڈرامے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ انہوں نے ہندوستان کی پہلی آواز والی فلم (Talkie) ’’عالم آراء‘‘ کا منظر نامہ (Script) بھی لکھا اور اس طرح ہندوستان کے پہلے فلم اسکرپٹ رائٹر قرار پائے۔
آزاد ہندوستان کی انگریزی شاعری کو غیر ملکی بالادستی سے آزاد کرانے کا کارنامہ انجام دیا ایک بنی اسرائیل یہودی تھے۔ پدم بھوشن پروفیسر نیسیم ایزایکیل (پیدائش ممبئی 1924)۔ ہندوستان کی جدید انگریزی شاعری کے فرد اول ہیں۔ (ہندوستان کی جدید انگریزی شاعری کا فرد اول، امکان اگست 2003ء)۔ ایزیکیل نے اپنی شعری کاوشوں کے لئے ہندوستان کی ’’بابو انگلش‘‘ کو گلے لگایا تھا۔ نیسیم کے کئی شعری مجموعے شائع ہوئے جیسے:
(۱) اے ٹائم ٹو چینج 1952ء
(۲) سکسٹی پوئمس 1953ء
(۳) دی تھرڈ 1959ء
(۴) وی انفشڈ مین 1960ء
(۵) دی ایزیکٹ نیم 1965ء
(۶) لیٹر ڈے پامس۔ جس کے لئے نیسیم ایزیکیل کو 1983ء میں ساہتیہ اکادمی انعام ملا۔
میرا جیکب مہادیون کا شاہکار ہندی ناول ’’اپنا گھر‘‘ (1961) ہندوستان کے بنی اسرائیل یہودی سماج پر ایک معتبر دستاویز ہے۔ 1975ء میں ناول کے مرکزی کردار ’’شول میتھ‘‘ کے نام سے اپنا گھر کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا۔ عالم انسانیت کی تاریخ کے دو اہم واقعات، ہندوستان کی تقسیم اور قیام اسرائیل کا ہندوستان کی یہودی ملت پر کیا اثر پڑا اس کی ایک جھلک ملتی ہے اپنا گھر کے اس اقتباس میں:۔
’’ہندوستان کی تقسیم ہوئی تب بھی یہی مسئلہ سامنے آیا۔ اس کے باپ نے کہا تھا، ہمیں کراچی چھوڑ کر جانے کی ضرورت نہیں، ہماری ان کی لڑائی نہیں ہے۔۔۔ اسے یاد تھا جب پڑوس کا اقبال ولایت گیا تھا اور اسے وہاں مسلم کھانا نہیں ملا تو وہ ایک بنی اسرائیل کنبے کے ساتھ رہنے لگا۔ وجہ یہ تھی کہ یہودی اور مسلمان کبھی بھول کر بھی سور کا گوشت نہیں کھاتے۔ عیسائی ضرور کھاتے ہیں اسی لئے پردیس میں جا کر اقبال یہودیوں کا سوتیلا نہیں، سگا بھائی بن گیا تھا۔۔۔۔ مگر ایک دن کراچی کی یہودی عبادت گاہ مسلمانوں نے لوٹ لی۔ وجہ کیا تھی، یہی کہ فلسطین میں عرب اور یہودی لڑتے ہیں لیکن ہم نے کیا کیا، ہم یہودی ضرور ہیں پر ہندوستانی یہودی۔ ہم نے کسی کا کچھ بگاڑا نہیں، منگل کا دن تھا جب اس کی پھوپھی دوڑتی ہوئی آئی تھی، ’’بھابھی، بھابھی! کچھ سنا تم نے‘‘۔۔۔ ’’کیا ہوا‘‘۔۔۔ ’’عبادت گاہ کو لوٹ لیا‘‘۔ ’’لوٹ لیا کیسے کوئی نہیں تھا وہاں‘‘۔۔۔ ’’بھابھی بہت سارے مسلمان گھس آئے‘ اور حزان اپنے گھر پر تھے۔ اکیلے وہ کیا کر سکتے تھے، دیکھتے دیکھتے انہوں نے قیمتی قالین اٹھا لئے، بڑھیا فانوس نکال لئے اور ہیکل بھی کھول دیا‘‘۔ ۔۔۔’’ہیکل کھول دیا، یا خدا‘‘ ’’سے فیروں پر لگائے ہوئے سونے کے یودھ نکالے جن کا سونا ان پر تھا سارا نکال لیا‘‘ اور بھابھی۔۔۔‘‘ پھوپھی رونے لگی تھیں ’’کہہ دے کہہ دے‘‘ شلمتھ کی ماں نے خوفزدہ آواز میں کہا‘‘ ’’بھابھی انہوں نے تمام مقدس کتابیں جا کر پائخانہ میں ڈال دیں‘‘۔ کسی کو کانوں پر یقین نہیں ہوا۔ جن کتابوں کو ہم سال میں ایک مرتبہ گود میں لے کر ناچتے ہیں، جنہیں پڑھتے وقت ان پر ہاتھ بھی نہیں رکھتے، جنہیں چوم لینے سے ہمیں سکون و قرار ملتا ہے، جن کے پڑھنے پڑھانے سے علم کا سورج اگتا ہے، ہمارے عزیز سیفر تو راہ آج مسلمانوں نے پائخانے میں پھینک دیئے‘‘۔
یہ دردناک خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ سب لوگ عبادت گاہ پہنچے اور حزاں صاحب کتابوں سے لپٹ کر رو رہے تھے، نوجوان غصے سے کانپ رہے تھے۔ عبادت گاہ پھر سے سجائی جانے لگی۔ حزان نے روزہ رکھا۔ کئی عورتوں نے ان کا ساتھ دیا۔ آج مانو جماعت یتیم ہو گئی تھی۔ اطمینان صرف ایک ہی بات کا تھا کہ مقامی مسلمان اس حادثے سے دکھی ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا یہ کام غنڈوں کا ہے، ملک کی تقسیم کی وجہ سے ان کی بن آئی ہے۔ جب انہیں ہندو بھائی نہ ملے تو یہودیوں کی عبادت گاہ لوٹ لی۔
پانچ دن تک کراچی جیسے شہر میں بارش نہیں ہوئی۔ سب یہودی کراچی چھوڑ کر ممبئی آ گئے کچھ رہ گئے۔ ان کا ممبئی میں کوئی نہیں تھا وہ دن کتنا اہم تھا جب اپنا گھر اپنی کراچی چھوڑ کر اس انجان ممبئی شہر میں آئے تھے۔ اسے یاد آئیں۔۔۔ اقبال کی اماں، کتنی اچھی تھیں وہ۔ شلمتھ ان کے گلے مل کر رو پڑی تھی۔ اقبال کھڑا دیکھ رہا تھا۔ ’’اماں اب دوبارہ مل نہ سکیں گے‘‘۔ ’’ہاں بیٹا! اس تقسیم کو آگ لگ جائے‘‘ شلمتھ کی ماں بھی ان کے گلے مل کر روئی تھی ’’یاد رکھنا بہن پانچوں انگلیاں ایک سی نہیں ہوتیں جن کی وجہ سے تم جا رہی ہو وہ مسلمان نہ تھے، خدا کے بندے نہ تھے۔ وہ تھے گناہ گار۔ خدا کو نہ ماننے والے۔ سچا مسلمان تو ہمیشہ ہی یہودی کا بھائی رہے گا۔ یہ خون کا رشتہ کبھی مٹایا نہیں جا سکتا۔‘‘ ’’اگر ایسا نہ ہوتا تو اقبال کی اماں ہمارا دکھ کم ہوتا‘‘ ’’آپ لوگوں کو چھوڑ کر جانا اچھا نہیں لگتا، کیا کر سکتے ہیں بہن‘۔ ’’اچھا بابو خدا حافظ‘‘ ’’خدا حافظ‘‘۔ شلمتھ وہیں لیٹے لیٹے سو گئی۔ یہودیوں کے لئے دوسروں کی نفرت اسے بے حد دکھی کر دیتی ہے۔ شاید خواب میں بھی وہ چیخ چیخ کر یہی کہہ رہی تھی، ہم سب کے بھائی ہیں ہماری کسی سے دشمنی نہیں ہے ہمیں جینے دو‘‘ (صفحات:64-66، میرا جیکب مہادیون ’’اپنا گھر‘)
سن 1947ء میں پاکستان میں یہودیوں کی آبادی تھی دو ہزار، جو زیادہ تر کراچی میں تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہاں کی حکومت نے یہودیوں کی سیاسی نمائندگی ختم کر دی۔ تشکیل اسرائیل کے نتیجے میں کراچی میں یہودیوں کے خلاف فساد بھڑک گئے اور ان کی عبادت گاہ جو 1893ء میں تعمیر ہوئی تھی نذر آتش کر دی گئی، یہودیوں نے ممبئی میں پناہ لی، اور اس طرح کراچی میں یہودی آبادی صرف اڑھائی سو رہ گئی۔
ہندوستان کی ایک نمایاں انگریزی ناول نویس کا نام ہے ایستھر ڈیوڈ، ڈیوڈ کا تعلق احمد آباد کی تین سو افراد کی یہودی ملت سے ہے۔ ڈیوڈ کا پہلا ناول ’’دی والڈ سٹی‘‘، مطالعہ ہے ان طاقتوروں کا جو مختلف قوموں کو اور ان کی نئی پرانی نسلوں کو بیک وقت متحد اور تقسیم کرتی ہے۔ ڈیوڈ کے اکیس غیر معمولی افسانوں کا مجموعہ ’’بائے دی سابرمتی‘‘، جھانکتا ہے۔ عام ہندوستانی عورت کی زندگی میں۔ ایستھر کا دوسرا ناول ’’بک آف ایستھر‘‘ (ایستھر بائبل کی ایک کتاب کا نام بھی ہے) میلہ ہے ہندوستانی یہودی کرداروں کا۔ اس ناول میں سوانحی رنگ ہے۔ کہانی شروع ہوتی ہے برٹش فوج کے ایک ہندوستانی یہودی سپاہی کی کشمکش ہے جسے اپنی ملازمت کی مجبوری کے تحت شیرِ میسور، ٹیپو سلطان کے خلاف لڑنا پڑ رہا ہے، جس کے لئے وہ بے پناہ عقیدت رکھتا ہے۔ ناول کی کہانی اسی خاندان کی کئی نسلوں کے پار احمد آباد کے دور حاضر تک آتی ہے۔ ڈیوڈ کے دلچسپ افسانوں کی راہ سے ہمارے سامنے ہندوستان کے بنی اسرائیل یہودیوں کا پورا سماجی تانہ بانہ ابھرتا ہے۔
یہودی ہمیشہ سے قلم کے دھنی رہے ہیں اور ان کا ادب سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ نوبل انعامات کی ایک صدی (1901-2000) میں دس یہودی نوبل انعام جیت چکے ہیں، جب کہ دنیا کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب صرف 0.2 فیصد اس کے برعکس مسلمان ہیں، جو 19.6 فیصد ہیں اور ہندو جو تقریباً 13.02 فیصد ہیں، دونوں ملتوں کے صرف دو دو ادیبوں نے نوبل انعامات جیتے ہیں (مسلمان: البرٹ کاموس اور نجیب محفوظ/ ہندو: رویندر ناتھ ٹیگور اور ودیادھر سورج پرشاد نائپال)۔

 

جدید اب رانی ادب کا ایک جائیزہ

ڈاکٹر نورس جاٹ آفریدی

عبرانی، بائیبل کی زبان ہے اورسمیٹک زبانوں میں سب سے پرانی۔ قدیم ترین زبانوں میں سے ایک، عبرانی کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، آج اس یہودی زبان کے بولنے والے تو اسرائیل کی سرحدوں میں محدود ہیں، جن کی تعداد ہے تقریباً پچاس لاکھ، لیکن مذہبی مقاصد کے لئے عبرانی کو برتنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے، جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے عبرانی دنیا کی بڑی زبانوں میں شمار نہیں کی جاتی، یہ زبان نوبل انعام جیت چکی ہے، اپنے بہترین ادب کے لئے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان چینی ہے۔ جس کے بولنے والوں کی تعداد ہے 87,40,00,000 اس نے بھی اب تک صرف ایک ہی نوبل انعام جیتا ہے۔ اسکینڈی نیویائی لوگوں کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں پڑھنے والے اسرائیلی ہی ہیں۔ اسرائیل میں ہر سال چار ہزار نئی کتابیں شائع ہو جاتی ہیں جو قارئین کی آبادی کے لحاظ سے چین کی در کے بعد سب سے اونچی در ہے۔ یہودیوں کی دو ہزار سال کی جلا وطنی کے دوران عبرانی بحیثیت بال چال کی زبان ختم ہوگئی تھی اور صرف مذہبی ضرورتوں کے لئے مخصوص ہو کر رہ گئی تھی بلکل سنسکرت کی طرح۔ عبرانی کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے بڑی حد تک ایک ہی شخص ذمہ دار ہے۔ اِلائزر بین یہودا۔


بین یہودا نے اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ ایک ہی نسل میں عبرانی کو ایک نئی زوردار شکل میں پیدا کردیا۔ جو بہت جلد اسرائیل میں بسنے والے یہودیوں کے جذبے اور احساس کی زبان بن گئی۔ بین یہودا نے عبرانی زبان کے فروغ کے لئے جو کمیٹی تشکیل کی اس نے جدید ترین لسانی ضرورتوں کے مدّنظر ہزاروں کی تعداد میں عبرانی زبان میں نئے الفاظ تراشے۔ اسرائیل کا نعرہ بن گیا “یہودی!دابیر اِورِت” (یہودی! بول عبرانی) شہر اور دیہات ہر طرف ، ہر جگہ عبرانی درسگاہیں قائم کی گئیں۔ 1948میں قیامِ اسرائیل کے بعدعبرانی کو ملک کی سرکاری اور قومی زبان کی حیثیت ملی۔
اس حقیقت کے باوجود کہ یہودیوں کی دو ہزار سال کی جلا وطنی کے دوران عبرانی بول چال کی زبان نہیں رہ گئی تھی، اس میں تخلیقِ ادب کا سلسلہ برقرار رہا۔ اور عبرانی زبان کے کچھ سنہری دور بھی آئے۔ جیسے اسپین اور اٹلی میں۔ اٹھارہویں صدی سے عبرانی نے یورپی ادب کا ایسا گہرا اثر قبول کیاکہ مغربی ادب کا ایک حصہ بن گئی۔ جدید عبرانی ادب کا ابتدائی وقفہ مشرقی یورپ میں گزرا اور پوری بیسویں صدی اسرائیل میں، (14مئی1948) تک جسے فلسطین کہا جاتا تھا۔ حالانکہ بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں عبرانی قلم کار کم تھے پر انہوں نے بڑا معیاری ادب پیدا کیا۔ پہلے نثر میں اور پھر شاعری میں۔ اس دور کا سب سے بڑا نثر نگا ر تھایوسف ہائیم برینر، جسے اسرائیلی عبرانی ادب کا فردِ اوّل کہا جاتا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد مشرقی اور مغربی یورپ سے عظیم عبرانی قلم کار اسرائیل میں آ کر بسے، جن میں نمایاں تھے الّا ئیم نہمان بیالک۔ جن کی شاعری نے عبرانی سخن کے ایک نئے دور کا آغاز کیا، اور جو اب تک یہودیوں کے قومی شاعر کی حیثیت پا چکے ہیں، اور عظیم ترین عبرانی افسانہ نگار اشمائیل یوسیف ایگنون جنہیں 1966میں ادب کا نوبل انعام ملا۔ یہ مہاجر ادیب برس ہا برس کی تخلیقی زندگی کے بعد اسرائیل میں آکے بسے تھے۔ 1920کے بعد ایسے عبرانی ادیبوں کی کئی نسلیں منظرِ عام پر آگئیں جو اپنے موضوعات کے لئے غیر اسرائیلی یہودی بستیوں کی طرف نہیں دیکھتے تھے۔ اور جن کے ادب کی تخلیق اسرائیل میں ہی ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپ اور امریکہ نے عبرانی زبان کے پرانے مرکز معیاری ادب پیدا کرتے رہے جیسے دیوڈ ووگیل کا ناول “شادی شدہ زندگی” (1929)

بیسویں صدی کے تیسری اور چوتھی دہائیوں میں اسرائیل کے عبرانی ادب میں شاعری کی بہار آ گئی۔ روسی انقلاب اور مشرقی یورپ میں یہودیوں کے قتلِ عام کے نتیجے میں اسرائیل آئے مہاجر عبرانی شاعروں نے جرمن طرزِ اظہار اور روسی علامتوں سے متاثر شاعری کی۔ اس اندازِ سخن کے سب سے بڑے شیدائی تھے ایوراہمؔ شلونسکی، یوری زوؔ ی گرین برگ، نیتھن آلٹر ؔ مین، لیہ گولڈبرؔ گ، یوناکن رؔ اتوش، ایودتؔ یشورن۔
ان عظیم شاعروں کے اثرات بعد میں آنے والے شاعروں پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں، جیسے حائیم گوؔ یوری، اے ہائیلیل ؔ اور ناتھنؔ یوناتھن۔ چالیس سے پچاس کی دہائی میں ادبی منظرِ عام پر ان عبرانی ادیبوں کی پہلی نسل ابھری جن کی پیدائش اسرائیل میں ہی ہوئی تھی۔ 1948 کی جنگ کے پس منظر میں ادیبوں کی اس نئی نسل کو “جنگِ آزادی کی نسل” کہا گیا۔ اس نسل کے ادیبوں میں سب سے بڑا نام ہے ایس یزؔ ہار، جو آج اسرائیلی ادب کے Doyen تسلیم کئے جاتے ہیں۔ یزہارؔ کا پہلا افسانہ 1938میں شائع ہوا۔ حال ہی میں برسوں کی خاموشی کے بعد یزہارؔ کے تین ناول منظرِ عام پر آئے جو اسرائیلی شہری زندگی کے عکاس تھے۔یزہارؔ اپنی شاعرانہ نثر کے لئے جانے جاتے ہیں، اس کے برعکس ان کے ہم عصروں کا انداز ان سے بلکل مختلف ہے۔ جب کہ نثر کا زور اسرائیلیوں کے مشترکہ تجربات پر ہے۔ مثلاً ساری دنیا سے آ کر فلسطین /اسرائیل میں بسنے کا عمل اور سیاسی آزادی کے لئے جدوجہد۔ ان نئے ادیبوں کو آلٹر مینؔ کی شاعری سے تحریک ملی جن کی نظم “چاند کی طشتری” (1947) ملک کے بچے بچے کی زبان پر آگئی۔ اس نے اسرائیلیوں کو حب الوطنی اور قربانی کے جذبات سے معمور کردیا۔
موش شمیرؔ ، آئیگل موسنؔ سوہن، اہرونؔ میگیڈ، ناتھن ؔ شہام، ہنوخ ؔ بارتوو اور یزہارؔ نے اپنے افسانوں میں ایک نئے یہودی کی تصویر پیش کی۔ یہ یہودی ایک طاقتور اور آزاد اسرائیلی تھا، جلا وطنی کے دور کا مظلوم نہیں تھا۔ “جنگِ آزادی کی نسل” کے ناول بہت مقبول ہوئے اور ان پر فلمیں بھی بنیں۔
1952میں ادبی جریدہ “لکرات” نے ایک انقلاب کی شروعات کی، اپنے شاعروں ناتن زاخؔ ، موشے ڈورؔ ، اور ارییہ سائیونؔ کے ذریعہ جنہوں نے اپنے کم سن ساتھیوں ڈیوڈؔ ایویڈن، ڈہلیا راویکووچؔ ، اور ڈانپ پیگسؔ کے ساتھ جدید عبرانی شاعری کو شلونسکیؔ -آلٹر مینؔ کی شعری روایات سے آزاد کر کے مشترکہ تجربات و احساسات کے بجائے انفرادی تجربوں پر زور دیا۔ ان شاعروں نے فرانسیسی فلسفے اور ادب کے زیرِ اثر جماعت کے مقابلے فرد کو اہمیت دی، اور اس کے ترجمان بنے۔ جہاں یہوداؔ ایما حئی کی شاعری جنگ اور حکومت کے ظالمانہ اعمال کی مخالف تھی، وہیں ڈیوڈ ایویڈنؔ کی شاعری مشتعل کرنے والی تھی۔
پچاس کی دہائی میں عبرانی ادب نے حقیقت پسندانہ رخ اپنایا۔ ڈیوڈ شاہرؔ کے ناول “سونے کا چاند” (1959) نے اسرائیلی معاشرے کے تاریک پہلو کو بے نقاب کردیا۔ ساٹھ کی دہائی میں اس حقیقت پسندانہ انداز میں کمی آئی، لیکن حال ہی میں اسے پھر دوبارہ اسرائیلی ادب میں محسوس کیا گیا ہے۔ بڑی حد تک یہودی ادیبوں نے اپنے دردناک ماضی سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی ہے اور یہی چاہتے ہیں کہ انہیں بھیشمؔ ساہنی کا “تمس” نہ لکھنا پڑے، لیکن وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے۔ یورپ میں یہودیوں کا قتلِ عام کئی عبرانی ادیبوں کی تصانیف کا موضوع بنا جیسے: ایپلؔ فیلڈ، زیتنکؔ ، شمئیؔ گولن، یوریؔ اورلیو، یہودا ؔ ایمی حئی، بانوخؔ بارتوو، یونتؔ ، سینیدؔ ، ہورامؔ کنیک۔
اسّی اور نوّے کی دہائیوں میں بڑے پیمانے پر یہودیوں پر جرمن نازیوں کے ظلم پر منحصر ناول لکھے گئے۔ قیام اسرائیل سے قبل عبرانی ادب میں ایشیائی یہودی کردار شاذو نادر ہی نظر آتے تھے، لیکن 1960 کے بعد عرب دنیا سے آئے یہودی قلم کاروں نے بڑے پیمانے پر مشرقی یہودیوں پر لکھنا شروع کیا، ان یہودی ادیبوں میں نمایاں ہیں:
آمنون شاموشؔ ، ایلیؔ امیر، سمی مائیکلؔ ، شمعونؔ بلاّس، اہرونؔ الموگ، ڈان ؔ سیری۔
عرب، بطور دشمن اسرائیلی ادب میں، پچھلی ایک صدی سے موجود ہے۔ 1948 کی جنگ نے عربوں اور یہودیوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا۔ جنگ کے بعد ابھرنے والے ناول نویس یزہارؔ ، تموزؔ ، یہوشواؔ اور اوزؔ نے عرب اسرائیلی ٹکراؤ اور کڑواہٹ پر افسوس ظاہر کیا۔ ان افسانہ نگاروں نے عرب (فلسطینی) کو ایک ایسے مظلوم کی حیثیت سے پیش کیا جس کو اپنی ہی زمین سے محروم کردیا گیا۔ لیکن ان قلم کاروں نے اپنی بہت سی تحریروں میں عرب کا خاکہ ایک شرپسند جیسا بھی کھینچا ہے۔ عرب اسرائیلی ٹکراؤ پر عبرانی ادب میں بے پناہ لکھا گیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر عرب اسرائیلی جنگ کا عبرانی ادب پر گہرا اثر پڑا ہے۔
اس کے باوجود کہ ستّر اور اسّی کی دہائی میں کئی اچھے شاعر ابھرے، آج عبرانی شاعری زوال پذیر ہے۔ قارئین کی تعداد گھٹ رہی ہے اور موجودہ شاعری غیر معیاری ہے۔ اس کے برعکس عبرانی نثر پھل پھول رہی ہے۔ معیاری ناولوں کی ایک یا دو سال میں بھی پچاس سے اسّی ہزار کاپیاں بک جاتی ہیں۔ عبرانی زبان میں کئی رنگ و آہنگ کے ادب موجود ہیں، جیسے مزاحیہ ادب ، جاسوسی ادب، بچوں کا ادب، خواتین کا ادب وغیرہ۔ جدید عبرانی ادب ، اسرائیل کے یہودی معاشرے کا درپن ہے اس ادب کا اردو میں بھی ترجمہ ہوا ہے، جس کا سہرا ہے ڈاکٹر خالد سہیلؔ (کینیڈا) کے سر پر۔

ہندوستان کی جدید انگریزی شاعری کا فردِ اوّل: نیسمہ ازے کیل

تحریر: نورس جاٹ آفریدی

ایک بوسے کی طرح آباد ہے…انور ندیم
انگریزی حقیقتاً عالمی زبان ہے۔ دنیا کی کسی زبان کا علاقائی دائرہ اتنا وسیع نہیں جتنا 13سو سالہ انگریزی کا ہے۔ شاید ہی ایسی کوئی قوم ہو جس کے کم سے کم کچھ افراد کی مادری زبان انگریزی نہ بن گئی ہو۔ دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی کسی حد تک انگریزی سمجھ سکتی ہے اور بول سکتی ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں انگریزی نے علاقائی اثرات قبول کئے ہیں، جس کے نتیجے میں الگ الگ علاقائی لہجوں والی انگریزی وجود میں آئی ہے، جیسے افریقی انگریزی، جنوبی افریقی انگریزی، امریکی انگریزی، آسٹریلیائی انگریزی، کینیڈیائی انگریزی، آئرش انگریزی، اسکاٹش انگریزی، ویلش انگریزی، نیوزی لینڈ کی انگریزی، اور جنوبی ایشیائی یا ہندوستانی انگریزی۔
دنیا کی آبادی کا ایک چھٹا حصّہ دھرتی کے صرف ڈھائی فیصد رقبے پر آباد ہے، جسے ہم ہندوستان کہتے ہیں۔ آئین نے 18زبانوں کو ہندوستان کی بڑی زبانیں مانا ہے۔ 1961ء کے اعدادو شمار میں 1652 مادری زبانوں کے نام موجود ہیں۔ اعدادو شمار میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تقریباً ہر بیس میل پر بولی بدل جاتی ہے، ایسی صورت میں انگریزی زبان کی ہندوستان میں حیثیت اور اہمیت خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے۔ انگریزی حالانکہ ہندوستان میں پیدا نہیں ہوئی، مگر برٹش راج کے دوران اس نے یہاں ایسی گہری جڑیں جمائیں کہ آج انگریزی وہ واحد زبان ہے جس کے ادب کا ہندوستان کی سبھی زبانوں کے لوگ اثر قبول کرتے ہیں، اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہندی بھلے ہی بڑے پیمانے پر سمجھی جاتی ہو، پر اس کا ادب جنوبی ہندوستان پڑھ رہا ہو، ایسا با لکل نہیں۔ ہندوستان نے کئی انگریزی شاعر پیدا کئے جیسے تورودت، سروجنی نائیڈو، آروبندوگھوش، رویندر ناتھ ٹیگور، ڈام مورس، وکرم سیٹھ، کملا داس، اروند مہر وترا، عادل جسّا والا، کڑاک، پی لال، رامانجن، ارُن کولاٹکر، پارتھا سارتھی، کیلی دارو والا، شیو کمار۔ لیکن جس نے ہندوستان کی جدید انگریزی شاعری کی ایک الگ شناخت قائم کی، وہ ہے نیسمہ ازے کیل۔
نیسمہ ازے کیل وہ پہلا شخص ہے جس نے ہندوستانی لہجے والی انگریزی (جسے بابو انگلش کے نام سے جانا گیا) کو شعری مقصد کے لئے پورے اعتماد کے ساتھ بغیر کسی تکلّف کے استعمال کیا۔ یہ وہ انگریزی ہے جو گرامر کے اصولوں کی کم علمی کے نتیجے میں ہندوستان میں پیدا ہوئی۔ ازے کیل کی شاعری اسی ہندوستانی انگریزی کا جشن ہے۔ پہلی مرتبہ ہندوستانی انگریزی کا سنجیدہ ادبی استعمال ہوا، ازے کیل کی شاعری کی راہ سے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے آزاد ہندوستان کی جدید انگریزی شاعری کے بہاؤ کا رخ طے کردیا۔ اس طرح ایک ایسی انگریزی شاعری وجود میں آئی، جو اپنے احساس و تصور، خیال و موضوع، اندازو بیان، فکرو اظہار ہر اعتبا رسے خالص ہندوستانی ہے۔
ازے کیل نے وہ پیمانہ ہی مٹا دیا جس پر انگریزی شاعری کو اب تک آنکا گیا اتھا، وہ کسوٹی ہی مٹا دی جس پر اسے کسا گیا تھا۔ ازے کیل کی بے پناہ شعری قوت اور صلاحیت نے ساری دنیا کو ہندوستان میں کی جارہی انگریزی شاعری کی طرف متوجہ کیا۔ ازے کیل نے جس طرح جنوبی ایشیاء کی انگریزی شاعری کو متاثر کیا ہے ایسے کسی نے نہیں کیا۔ ازے کیل نے بر صغیر کے انگریزی شاعروں کی پوری ایک نسل کو تحریک دی ہے۔ ازے کیل کی شاعری کا مقصد انور ندیم کے اس شعر میں جھلکتا ہے ۔۔
کاش میری شاعری میرا سخن ایسا کرے
دل سے نکلے اور دل میں اپنا گھر پیدا کرے
شاعری دھرتی کے نازک گال پر

دسمبر 1924ء میں، ممبئی کے ایک بینی اسرائیل (ہندوستان کی تین یہودی ملّتوں میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی، تقریباً 2 ہزار سال سے مہاراشٹر میں مقیم) گھر میں ازے کیل کی ولادت ہوئی۔ اس نسلی اور مذہبی پس منظر سے ازے کیل کو وہ بے لاگ نظر ملی جس سے ازے کیل نے ہندوستانی سماج کو دیکھا۔ ازے کیل کے والد جن کا انتقال 1969ء میں ہوا، باٹنی اور زولوجی کے پروفیسر تھے۔ اور کئی کالجوں کے پروفیسر رہے۔ ازے کیل کی ماں ایک اسکول کی پرنسپل تھیں، جس کو انہوں نے خود قائم کیا تھا۔ ازے کیل نے ممبئی کے مشنری اسکولوں اور پھر ولسن کالج میں تعلیم حاصل کی، جہاں ازے کیل کو ایم-اے کے دوران وظیفہ بھی ملا۔ ازے کیل نے 1947ء میں ایم -اے انگریزی میں پوری یونیورسٹی میں اوّل آکر آر- کے لاگو انعام جیتا۔ ایم-اے کے دورانِ تعلیم ازے کیل نے ہنس راج مرار جی پبلک اسکول میں بحیثیت پارٹ ٹائم ٹیچر ملازمت بھی کی۔ ازے کیل ہندوستان کی آزادی تک ریڈیکل ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک کارکن رہے۔ 1947-48 ء میں انہوں نے خالصہ کالج ممبئی میں انگریزی ادب پڑھایا۔ اس درمیان ان کے کئی مضامین ہندوستان کے نمایاں اخبارات اور ادبی جریدوں میں شائع ہوئے۔
1948 ء میں جناب ای-القاضی کی مدد سے ازے کیل انگلینڈ چلے گئے۔ مشہور برک بیک کالج میں فلسفے کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے۔ انگلینڈ میں قیام کے آخری سال 1952ء میں ازے کیل کی پہلی تصنیف “اے ٹائم ٹو چینج” منظر عام پر آئی۔ ازے کیل نے انگلینڈ سے اپنی واپسی کے کرائے کا انتظام ایک پانی کے جہاز پر صفائی کر نے اور کوئلہ اٹھانے کی نوکری کر کے کیا۔ اپنے معیاری کام کے نتیجے میں ازے کیل کو “ایک ممتاز جہازی” ہونے کی سند ملی۔ تب سے لے کر آج تک ازے کیل نے مختلف پیشے اختیار کئے، پر زور ہمیشہ قلم کی جلوہ کاریوں پر رہا۔
انگلینڈ سے واپسی پر ازے کیل “دی السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا” کے ایڈیٹورئیل اسٹاف میں شامل ہوگئے، جہاں انہوں نے دو سال کام کیا۔ 1952ء سے 1962ء کی دہائی میں ازے کیل تسلسل کے ساتھ آل انڈیا ریڈیو کے ممبئی اسٹیشن سے نشر ہوتے رہے۔ نومبر1952ء میں ڈیزی جیکب سے شادی ہوگئی اور دسمبر میں 1953ء میں دوسرا شعری مجموعہ ، “ساٹھ نظمیں ” شائع ہوا۔ 1954ء میں شلپی ایڈورٹائزنگ کمپنی میں ازے کیل بحیثیت ایک کاپی رائٹر شامل ہو گئے۔ 1955ء میں کوئیسٹ کے پہلے ایڈیٹر بنے۔ 1957ء میں شلپی کے مینیجر کی حیثیت سے چار مہینے امریکہ میں رہے، جہاں فار فیلڈ فاؤنڈیشن کے ایک وظیفے کے سہارے امریکی یونیورسٹیوں کا دورہ کیا۔ 1959ء میں ازے کیل نے شلپی چھوڑ کر دوبارہ ٹیچری ا ختیار کرلی۔ اسی سال ممبئی کے “دی اسٹرانڈ بک شاپ” نے ازے کیل کا تیسرا شعری مجموعہ “دی تھرڈ” شائع کیا۔ ایک سال ایک پکچر فریم بنانے والی کمپنی “چیموولڈ” کے جنرل مینیجر کی حیثیت سے کام کیا، جس دوران ازے کیل نے اپنے چوتھے شعری مجموعے “دی ان فنشڈ مین” کی نظمیں لکھیں، جسے رائٹرس ورکشاپ کلکتہ نے 1960ء میں شائع کیا۔ 1961ء میں ماہنامہ امپرنٹ سے وابستہ ہوئے، جس میں ازے کیل نے بڑے پیمانے پر کتابوں کے تبصرے لکھے، اور ایک معتبر تنقید نگار کی حیثیت سے ابھرے۔ جون 1961ء میں ازے کیل تعلیمی زندگی کی طرف لوٹ آئے۔ میرا بائی کالج آف آرٹس ممبئی میں پروفیسر اور صدر شعبۂ انگریزی کی حیثیت سے جون 1974ء تک رہے۔ 1964ء سے 1966ء ، تین برس تک ازے کیل روزنامہ ٹائمس آف انڈیا کے آرٹ کریٹک رہے۔ بحیثیت ویزیٹنگ پروفیسر ازے کیل نے یونیورسٹی آف لیڈس (یوکے) میں جنوری سے جون 1964ء کے درمیان ہندوستان کے انگریزی ادب پر تاریخ ساز لیکچرز دئیے۔ 1965ء میں پانچویں شعری کتاب “دی ایگزیکٹ نیم” منظرِ عام پر آئی، جسے رائٹرس ورکشاپ کلکتہ نے شائع کیا۔ 1966ء سے 1967ء کے درمیان ان کی ادارت میں سہ ماہی “پوئیٹری انڈیا” کی چھ جلدیں سامنے آئیں۔
ازے کیل نے ہندوستانی پی آئی این میں ایک نمایاں کردار ادا کیا اور ایک دہائی سے زیادہ طویل عرصے تک اس کی مرکزی کیوٹیو کمیٹی کے ممبر رہے۔ بحیثیت سیکریٹری ازے کیل کے دو دور رہے، 1963ء سے 1966ء اور پھر 1968ء سے 1972ء۔ ازے کیل اگست 1972ء میں دی انڈین پی ای این کے مدیر بن گئے۔ 1969ء میں ازے کیل اپنی کتاب “تھری پلیز” تین ناٹک کے ساتھ ایک ڈرامہ نویس کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آئے۔ 1969ء سے 1972ء کے درمیان ازے کیل، جے جے اسکول آف آرٹس اور دیگر اداروں کے لئے فن شناسی کے آٹھ کورسز کی نظامت کی۔ نومبر 1974ء میں ازے کیل نے امریکی حکومت کی دعوت پر امریکہ کا دورہ کیا۔ بعد میں ازے کیل ممبئی یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی کے ریڈر ہوگئے۔ ازے کیل للت کلا اکادمی اور ساہتیہ اکادمی جیسے ذیشان اداروں کی جنرل کاؤنسلوں کے ممبر رہے۔
نیسمہِ ازے کیل کو ملے انعامات کی فہرست بہت طویل ہے، پھر بھی ان میں اہم ہیں ساہتیہ اکادمی انعام جو انہیں اپنی شعری کتاب “لیٹر ڈے پزلمس” کے لئے 1893ء میں ملا۔ 1988ء میں نیسمہ ازے کیل کو پدم شری کا ایوارڈ ملا۔
آج نیسمہ ازے کیل ہماری بیچ نہیں، صرف ان کا چلتا پھرتا جسم ہے جس کا بسیرا ہے ممبئی کے ایک نرسنگ ہوم میں۔ الزائیمر کے مرض نے جنوبی ایشیاء کو اس کے سب سے عظیم انگریزی شاعر سے محروم کردیا ۔۔۔
الٰہی ! ہمیں کچھ نہ دے زندگی سے
تعلق تو باقی رہے شاعری سے …انور ندیم

سرمد انوکھی چلت پھرت کا کردار


سماج کے وہ انسان دشمن رویے جو فرد سے اس کی آزادی چھین لیتے ہیں اور اسے اسیر جماعت بننے پر مجبور کرتے ہیں، ان کے خلاف بغاوت کی سب سے بڑی علامت کا نام ہے سرمد! حیرت نہیں کہ سرمد نے جسمانی زندگی چھوڑ کر روحانی زندگی کو گلے لگایا اور اننت جیون کے ساگر میں جلا ملا
ہر ایک شہر کو نفرت ہے ابن آدم سے
ہر اک مقام پہ میلا ہے تلخ کلامی کا
ہر ایک عہد میں سولی اٹھائے پھرتے ہیں
وہ چند لوگ جو دنیا سے دور ہوتے ہیں
وہ چند لوگ جو ٹھوکر پہ مار دیتے ہیں
کلاہ و تخت و سیاست کی عظمتیں ساری
زمیں انہی کو پیام حیات دیتی ہے
وہی پیام جسے تم اجل سمجھتے ہو!
(انور ندیم)
صوفی سرمد کو جن کہانیوں نے گھیر رکھا ہے ان سے تو سب واقف ہیں۔ تاریخ میں سرمد کی شخصیت کس طرح جھلکتی ہے، آیئے اس پر نظر ڈالیں!۔ سرمد کی زندگی کے بارے میں معلومات کے تین بنیادی ذرائع ہیں:۔
(۱) دبستان مذاہب (۲) مرآۃ الخیال (۳) ریاض الشعراء۔
سرمد نے ایران یا آرمینیا کے ایک یہودی خاندان میں ۱۵۹۰ء کے آس پاس جنم لیا! سرمد نے فارسی اور عبرانی زبانوں پہ قدرت حاصل کی اور ایک بلند مقام یہودی عالم ’’ربی‘‘ کا رتبہ حاصل کیا۔ دنیا کے تمام مذاہب کے گہرے مطالعہ کے بعد ملا صدر الدین شیرازی اور مرزا عبدالقاسم فرونسکی کی سرپرستی میں اسلام قبول کر لیا۔ مرزا عبدالقاسم نے سرمد کو ہندوستانی فلسفے سے متعارف کرایا اور ’’اہنسا‘‘ کا شیدائی بنایا۔
ہیرے جواہرات کی تجارت ۱۶۳۲ء میں سرمد کو ہندوستان لے آئی جہاں تھٹ (سندھ) میں وہ ابھے چند کے عشق میں گرفتار ہوگیا۔ ابھے چند کے دولت مند باپ نے اپنے بیٹے کو حفاظت کے خیال سے شہر کے حاکم محمد بیگ بقشی کے یہاں قید کر لیا۔ اسے معشوق سے جدائی نے سرمد کو دنیا سے بے نیاز کر دیا اور اس نے لباس تک ترک کر دیا۔
تم دنیا ہو دیوانی ہو جذبات سے خالی لگتی ہو
ہم تم کو عریاں لگتے ہیں تم ہم کو گندی لگتی ہو
(انور ندیم)
آخرکار ابھے چند اپنے باپ کی قید سے آزاد ہو کر سرمد سے جلا ملا۔ اس کے بعد ۱۶۳۴ء میں دونوں لاہور چلے گئے جہاں سے سرمد کی شہرت دور دور تک پھیلی، لاہور میں گیارہ برس گزارنے کے بعد انہوں نے حیدرآباد کو اپنا مرکز بنایا، یہیں ابھے چند نے سرمد کی شاگردی میں توریت کا فارسی ترجمہ کیا جو ’’دبستان مذاہب‘‘ کا حصہ بنا۔
سرمد پر یہودی فلسفے کا گہرا اثر تھا، ’’دبستان مذاہب‘‘ میں سرمد نے یہودی فلسفے کو کچھ یوں پیش کیا ہے:۔
’’توریت اور زبور کے مطابق روح ایک پاکیزہ وجود ہے جو انسانی جس میں رہتا ہے۔ پوری انسانی زندگی روح کی لمبی عمر میں صرف ایک دن کی مانند ہے اور موت رات کی ابتدا ہے‘‘۔
سرمد کی عریانیت کو بھی یہودیت سے جوڑا جاتا ہے۔ ’’دبستان مذاہب‘‘ میں صفحہ ۲۹۸ پر سرمد کا کتھن ہے:۔
’’یہودیوں کے لئے اپنی شرم گاہیں ڈھکنا لازمی نہیں۔‘‘
سرمد نے ہندوستانی مذاہب (ہندو، بودھ اور چین) اور داؤدازم کا بھی اثر قبول کیا تھا۔
سرمد! ترا دنیا میں بڑا نام ہو، جب کفر سے تو مائل اسلام ہوا
اللہ و نبی میں برائی کیا تھا، کیوں پھر مرید لچھمن و رام ہوا
شیخ محمد خان کے انتقال کے بعد ۱۶۵۴ء میں سرمد دلی جا بسا۔ دلی میں سرمد کا قیام قادری سلسلے میں صوفی خواجہ سید ابو القاسم سبزواری کے یہاں رہا، جہاں سرمد کی دوستی داراشکوہ سے ہوئی یہی دوستی سرمد کے قتل کی بنیادی وجہ بنی۔
اورنگزیب نے ۱۶۶۰ء میں سرمد کو کیوں قتل کروایا اس پر آج بھی تاریخ دانوں میں اتفاق رائے نہیں ہے۔ پانچ بنیادی وجہیں ہیں جو سرمد کے قتل کے سلسلے میں پیش کی جاتی ہیں:۔
(۱) سرمد کا عالم گیری فرمان ماننے سے انکار کہ وہ کپڑے پہنے۔
(۲) سرمد کا ہمیشہ آدھا کلمہ پڑھنا (سرمد لا الہ پر رک جاتا تھا)
(۳) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی معراج سے انکار۔
(۴) سرمد کی پیشن گوئی کہ تخت کے لئے مقابلے میں داراشکوہ کی فتح ہوگی۔
(۵) اورنگ زیب کے لئے اس کا طنز۔
کہا جاتا ہے کہ سرمد نے جلاد میں اپنے محبوب، اپنے مولیٰ کو محسوس کیا اور اس کا مسکراتے ہوئے استقبال کیا!
سرمد کا مزار ولی کی جامع مسجد کے نزدیک اس جگہ ہے جہاں سرمد کو شہید کیا گیا۔
وہ دیوانہ اک شاعر تھا، وہ دنیا سے یہ کہتا تھا
تم باسی کھچڑی لگتی ہو تم ٹھنڈی روٹی لگتی ہو

تحریر: نورس جاٹ آفریدی

ڈاکٹر ذاکر حسین کی یہودی دوست

پی ایچ ڈی کے سلسلے میں جرمنی میں گزرے ہوئے چار برس (1922-26) ڈاکٹر ذاکر حسین، ریسرچ اسکالر، شعبہ تاریخ جدید، لکھنؤ یونیورسٹی؍ ممبران انڈین ہسٹری کانگریس کی زندگی کا سب سے خوشگوار وقفہ تھا۔ یہاں ان کی ملاقات ہوئی یہودی حسینہ گیرڈا فلپس بارن سے، جنہوں نے مغربی تہذیب و ثقافت کے مختلف پہلوؤں سے ڈاکٹر حسین کو متعارف کروایا!۔
مس فلپس بارن سے ڈاکٹر حسین کی ملاقات، مسز نامبیار کے ذریعے ہوئی، جو سروجنی نائیڈو کی چھوٹی بہن تھیں۔ مسز نامبیار ایک انجمن ساز خاتون تھیں، جو اپنی قیام گاہ پر ہر شام ایسی محفلیں منعقد کرتی تھیں، جہاں یک مزاج جرمن اور ہندوستانی افراد ایک دوسرے کے قریب آتے تھے۔ ایسی ہی ایک پارٹی میں ڈاکٹر حسین کا مس فلپس بارن سے تعارف ہوا۔ گیرڈا فلپس بارن، برلن کے ایک صاحب حیثیت یہودی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ طرح دار دلچسپیوں کی مالک مس فلپس ذاتی طورپر ممتاز ترین فنکاروں، ڈرامہ نویسوں، موسیقاروں اور آرکسٹرا کنڈکٹروں سے واقف تھیں۔ اس جرمن یہودی حسینہ اور آفریدی پٹھان نوجوان نے نہ جانے کتنی خوبصورت شامیں ایک ساتھ گزاریں۔
دسمبر 1932ء میں فلپس بارن ہندوستان چلی آئیں۔ ڈاکٹر حسین ان کا استقبال کرنے کے لئے بمبئی گئے، یکم جنوری 33ء کو فلپس بارن کو باقاعدہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے ایک اسٹاف ممبر کی حیثیت سے مدعو کر لیا گیا انہیں پرائمری اسکول اور اس کے ہاسٹل سے وابستہ کر دیا گیا!۔۔۔ پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر عبدالغفار مدھولی ایک سخت مزاج اور وقت کے پابند شخص تھے۔ ڈاکٹر حسین کو ایک اسکولی جلسہ میں صدارت فرمانی تھی، جب ڈاکٹر حسین دویا تین منٹ کی تاخیر سے پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ جلسہ شروع ہو چکا تھا کسی اور کی صدارت میں، اس طرح مدھولی صاحب سے ڈاکٹر حسین کو بھی وقت کی اہمیت کا سبق مل چکا تھا۔ ایسی صورت میں مس فلپس بارن کے سلسلہ میں مدھولی صاحب سے کسی نرمی یا رعایت کی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔ بہت جلد مس فلپس بارن کے خلاف، عبدالغفار مدھولی کی تحریری شکایتوں نے، ڈاکٹر حسین کو کڑواہٹ سے بھر دیا۔ ڈاکٹر حسین اس بات سے خاصے پریشان ہوئے کہ مس فلپس بارن کے اپنی کلاس میں دیر سے پہنچنے یا غیر موجود رہنے کی وجہ سے عام طور سے ڈاکٹر حسین خود ہوتے، جن کے ساتھ وقت صرف کرتے ہوئے گیرڈا مس فلپس بان کو کسی اور ذمہ داری کا خیال ہی نہ رہتا۔ مس فلپس بارن کے نزدیک ڈاکٹر حسین سے تعلیمی پالیسی پر گفتگو زیادہ اہمیت رکھتی تھی بنسبت کسی بھی اور چیز کے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین اور مس گیرڈا فلپس بارن کے تعلقات میں آتی کشیدگی کی ایک اور وجہ یہ تھی۔ گیرڈا، ڈاکٹر حسین کے وقت پر صرف اپنا حق سمجھتی تھیں اور انہیں کچھ دیر کے لئے بھی کسی اور کے ساتھ چھوڑنے میں مس فلپس بارن کو شدید تکلف ہوتا تھا!۔۔ آخر کار 1943ء میں گیرڈا فلپس بارن کی کینسر سے موت ہو گئی۔ اپنی گرتی صحت سے بے نیاز، پیٹ میں اکثر اٹھنے والے شدید درد کے باوجود نے کافی عرصہ تک اپنے مرض کا کوئی علاج نہیں کیا!۔۔ مس فلپس بارن کو اس کا احساس تھا کہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ ڈاکٹر حسین اکثر ان کے کہنے پر انہیں قرآن شریف پڑھ کے سناتے۔ گیرڈا کو ان کی وصیت کے مطابق بحیثیت ایک مسلمان کے دفن کیا گیا۔
نورس جاٹ آفریدی