Friday, January 31, 2014

سرمد انوکھی چلت پھرت کا کردار


سماج کے وہ انسان دشمن رویے جو فرد سے اس کی آزادی چھین لیتے ہیں اور اسے اسیر جماعت بننے پر مجبور کرتے ہیں، ان کے خلاف بغاوت کی سب سے بڑی علامت کا نام ہے سرمد! حیرت نہیں کہ سرمد نے جسمانی زندگی چھوڑ کر روحانی زندگی کو گلے لگایا اور اننت جیون کے ساگر میں جلا ملا
ہر ایک شہر کو نفرت ہے ابن آدم سے
ہر اک مقام پہ میلا ہے تلخ کلامی کا
ہر ایک عہد میں سولی اٹھائے پھرتے ہیں
وہ چند لوگ جو دنیا سے دور ہوتے ہیں
وہ چند لوگ جو ٹھوکر پہ مار دیتے ہیں
کلاہ و تخت و سیاست کی عظمتیں ساری
زمیں انہی کو پیام حیات دیتی ہے
وہی پیام جسے تم اجل سمجھتے ہو!
(انور ندیم)
صوفی سرمد کو جن کہانیوں نے گھیر رکھا ہے ان سے تو سب واقف ہیں۔ تاریخ میں سرمد کی شخصیت کس طرح جھلکتی ہے، آیئے اس پر نظر ڈالیں!۔ سرمد کی زندگی کے بارے میں معلومات کے تین بنیادی ذرائع ہیں:۔
(۱) دبستان مذاہب (۲) مرآۃ الخیال (۳) ریاض الشعراء۔
سرمد نے ایران یا آرمینیا کے ایک یہودی خاندان میں ۱۵۹۰ء کے آس پاس جنم لیا! سرمد نے فارسی اور عبرانی زبانوں پہ قدرت حاصل کی اور ایک بلند مقام یہودی عالم ’’ربی‘‘ کا رتبہ حاصل کیا۔ دنیا کے تمام مذاہب کے گہرے مطالعہ کے بعد ملا صدر الدین شیرازی اور مرزا عبدالقاسم فرونسکی کی سرپرستی میں اسلام قبول کر لیا۔ مرزا عبدالقاسم نے سرمد کو ہندوستانی فلسفے سے متعارف کرایا اور ’’اہنسا‘‘ کا شیدائی بنایا۔
ہیرے جواہرات کی تجارت ۱۶۳۲ء میں سرمد کو ہندوستان لے آئی جہاں تھٹ (سندھ) میں وہ ابھے چند کے عشق میں گرفتار ہوگیا۔ ابھے چند کے دولت مند باپ نے اپنے بیٹے کو حفاظت کے خیال سے شہر کے حاکم محمد بیگ بقشی کے یہاں قید کر لیا۔ اسے معشوق سے جدائی نے سرمد کو دنیا سے بے نیاز کر دیا اور اس نے لباس تک ترک کر دیا۔
تم دنیا ہو دیوانی ہو جذبات سے خالی لگتی ہو
ہم تم کو عریاں لگتے ہیں تم ہم کو گندی لگتی ہو
(انور ندیم)
آخرکار ابھے چند اپنے باپ کی قید سے آزاد ہو کر سرمد سے جلا ملا۔ اس کے بعد ۱۶۳۴ء میں دونوں لاہور چلے گئے جہاں سے سرمد کی شہرت دور دور تک پھیلی، لاہور میں گیارہ برس گزارنے کے بعد انہوں نے حیدرآباد کو اپنا مرکز بنایا، یہیں ابھے چند نے سرمد کی شاگردی میں توریت کا فارسی ترجمہ کیا جو ’’دبستان مذاہب‘‘ کا حصہ بنا۔
سرمد پر یہودی فلسفے کا گہرا اثر تھا، ’’دبستان مذاہب‘‘ میں سرمد نے یہودی فلسفے کو کچھ یوں پیش کیا ہے:۔
’’توریت اور زبور کے مطابق روح ایک پاکیزہ وجود ہے جو انسانی جس میں رہتا ہے۔ پوری انسانی زندگی روح کی لمبی عمر میں صرف ایک دن کی مانند ہے اور موت رات کی ابتدا ہے‘‘۔
سرمد کی عریانیت کو بھی یہودیت سے جوڑا جاتا ہے۔ ’’دبستان مذاہب‘‘ میں صفحہ ۲۹۸ پر سرمد کا کتھن ہے:۔
’’یہودیوں کے لئے اپنی شرم گاہیں ڈھکنا لازمی نہیں۔‘‘
سرمد نے ہندوستانی مذاہب (ہندو، بودھ اور چین) اور داؤدازم کا بھی اثر قبول کیا تھا۔
سرمد! ترا دنیا میں بڑا نام ہو، جب کفر سے تو مائل اسلام ہوا
اللہ و نبی میں برائی کیا تھا، کیوں پھر مرید لچھمن و رام ہوا
شیخ محمد خان کے انتقال کے بعد ۱۶۵۴ء میں سرمد دلی جا بسا۔ دلی میں سرمد کا قیام قادری سلسلے میں صوفی خواجہ سید ابو القاسم سبزواری کے یہاں رہا، جہاں سرمد کی دوستی داراشکوہ سے ہوئی یہی دوستی سرمد کے قتل کی بنیادی وجہ بنی۔
اورنگزیب نے ۱۶۶۰ء میں سرمد کو کیوں قتل کروایا اس پر آج بھی تاریخ دانوں میں اتفاق رائے نہیں ہے۔ پانچ بنیادی وجہیں ہیں جو سرمد کے قتل کے سلسلے میں پیش کی جاتی ہیں:۔
(۱) سرمد کا عالم گیری فرمان ماننے سے انکار کہ وہ کپڑے پہنے۔
(۲) سرمد کا ہمیشہ آدھا کلمہ پڑھنا (سرمد لا الہ پر رک جاتا تھا)
(۳) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی معراج سے انکار۔
(۴) سرمد کی پیشن گوئی کہ تخت کے لئے مقابلے میں داراشکوہ کی فتح ہوگی۔
(۵) اورنگ زیب کے لئے اس کا طنز۔
کہا جاتا ہے کہ سرمد نے جلاد میں اپنے محبوب، اپنے مولیٰ کو محسوس کیا اور اس کا مسکراتے ہوئے استقبال کیا!
سرمد کا مزار ولی کی جامع مسجد کے نزدیک اس جگہ ہے جہاں سرمد کو شہید کیا گیا۔
وہ دیوانہ اک شاعر تھا، وہ دنیا سے یہ کہتا تھا
تم باسی کھچڑی لگتی ہو تم ٹھنڈی روٹی لگتی ہو

تحریر: نورس جاٹ آفریدی

No comments:

Post a Comment