Friday, January 31, 2014

ہندوستان کی جدید انگریزی شاعری کا فردِ اوّل: نیسمہ ازے کیل

تحریر: نورس جاٹ آفریدی

ایک بوسے کی طرح آباد ہے…انور ندیم
انگریزی حقیقتاً عالمی زبان ہے۔ دنیا کی کسی زبان کا علاقائی دائرہ اتنا وسیع نہیں جتنا 13سو سالہ انگریزی کا ہے۔ شاید ہی ایسی کوئی قوم ہو جس کے کم سے کم کچھ افراد کی مادری زبان انگریزی نہ بن گئی ہو۔ دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی کسی حد تک انگریزی سمجھ سکتی ہے اور بول سکتی ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں انگریزی نے علاقائی اثرات قبول کئے ہیں، جس کے نتیجے میں الگ الگ علاقائی لہجوں والی انگریزی وجود میں آئی ہے، جیسے افریقی انگریزی، جنوبی افریقی انگریزی، امریکی انگریزی، آسٹریلیائی انگریزی، کینیڈیائی انگریزی، آئرش انگریزی، اسکاٹش انگریزی، ویلش انگریزی، نیوزی لینڈ کی انگریزی، اور جنوبی ایشیائی یا ہندوستانی انگریزی۔
دنیا کی آبادی کا ایک چھٹا حصّہ دھرتی کے صرف ڈھائی فیصد رقبے پر آباد ہے، جسے ہم ہندوستان کہتے ہیں۔ آئین نے 18زبانوں کو ہندوستان کی بڑی زبانیں مانا ہے۔ 1961ء کے اعدادو شمار میں 1652 مادری زبانوں کے نام موجود ہیں۔ اعدادو شمار میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تقریباً ہر بیس میل پر بولی بدل جاتی ہے، ایسی صورت میں انگریزی زبان کی ہندوستان میں حیثیت اور اہمیت خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے۔ انگریزی حالانکہ ہندوستان میں پیدا نہیں ہوئی، مگر برٹش راج کے دوران اس نے یہاں ایسی گہری جڑیں جمائیں کہ آج انگریزی وہ واحد زبان ہے جس کے ادب کا ہندوستان کی سبھی زبانوں کے لوگ اثر قبول کرتے ہیں، اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہندی بھلے ہی بڑے پیمانے پر سمجھی جاتی ہو، پر اس کا ادب جنوبی ہندوستان پڑھ رہا ہو، ایسا با لکل نہیں۔ ہندوستان نے کئی انگریزی شاعر پیدا کئے جیسے تورودت، سروجنی نائیڈو، آروبندوگھوش، رویندر ناتھ ٹیگور، ڈام مورس، وکرم سیٹھ، کملا داس، اروند مہر وترا، عادل جسّا والا، کڑاک، پی لال، رامانجن، ارُن کولاٹکر، پارتھا سارتھی، کیلی دارو والا، شیو کمار۔ لیکن جس نے ہندوستان کی جدید انگریزی شاعری کی ایک الگ شناخت قائم کی، وہ ہے نیسمہ ازے کیل۔
نیسمہ ازے کیل وہ پہلا شخص ہے جس نے ہندوستانی لہجے والی انگریزی (جسے بابو انگلش کے نام سے جانا گیا) کو شعری مقصد کے لئے پورے اعتماد کے ساتھ بغیر کسی تکلّف کے استعمال کیا۔ یہ وہ انگریزی ہے جو گرامر کے اصولوں کی کم علمی کے نتیجے میں ہندوستان میں پیدا ہوئی۔ ازے کیل کی شاعری اسی ہندوستانی انگریزی کا جشن ہے۔ پہلی مرتبہ ہندوستانی انگریزی کا سنجیدہ ادبی استعمال ہوا، ازے کیل کی شاعری کی راہ سے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے آزاد ہندوستان کی جدید انگریزی شاعری کے بہاؤ کا رخ طے کردیا۔ اس طرح ایک ایسی انگریزی شاعری وجود میں آئی، جو اپنے احساس و تصور، خیال و موضوع، اندازو بیان، فکرو اظہار ہر اعتبا رسے خالص ہندوستانی ہے۔
ازے کیل نے وہ پیمانہ ہی مٹا دیا جس پر انگریزی شاعری کو اب تک آنکا گیا اتھا، وہ کسوٹی ہی مٹا دی جس پر اسے کسا گیا تھا۔ ازے کیل کی بے پناہ شعری قوت اور صلاحیت نے ساری دنیا کو ہندوستان میں کی جارہی انگریزی شاعری کی طرف متوجہ کیا۔ ازے کیل نے جس طرح جنوبی ایشیاء کی انگریزی شاعری کو متاثر کیا ہے ایسے کسی نے نہیں کیا۔ ازے کیل نے بر صغیر کے انگریزی شاعروں کی پوری ایک نسل کو تحریک دی ہے۔ ازے کیل کی شاعری کا مقصد انور ندیم کے اس شعر میں جھلکتا ہے ۔۔
کاش میری شاعری میرا سخن ایسا کرے
دل سے نکلے اور دل میں اپنا گھر پیدا کرے
شاعری دھرتی کے نازک گال پر

دسمبر 1924ء میں، ممبئی کے ایک بینی اسرائیل (ہندوستان کی تین یہودی ملّتوں میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی، تقریباً 2 ہزار سال سے مہاراشٹر میں مقیم) گھر میں ازے کیل کی ولادت ہوئی۔ اس نسلی اور مذہبی پس منظر سے ازے کیل کو وہ بے لاگ نظر ملی جس سے ازے کیل نے ہندوستانی سماج کو دیکھا۔ ازے کیل کے والد جن کا انتقال 1969ء میں ہوا، باٹنی اور زولوجی کے پروفیسر تھے۔ اور کئی کالجوں کے پروفیسر رہے۔ ازے کیل کی ماں ایک اسکول کی پرنسپل تھیں، جس کو انہوں نے خود قائم کیا تھا۔ ازے کیل نے ممبئی کے مشنری اسکولوں اور پھر ولسن کالج میں تعلیم حاصل کی، جہاں ازے کیل کو ایم-اے کے دوران وظیفہ بھی ملا۔ ازے کیل نے 1947ء میں ایم -اے انگریزی میں پوری یونیورسٹی میں اوّل آکر آر- کے لاگو انعام جیتا۔ ایم-اے کے دورانِ تعلیم ازے کیل نے ہنس راج مرار جی پبلک اسکول میں بحیثیت پارٹ ٹائم ٹیچر ملازمت بھی کی۔ ازے کیل ہندوستان کی آزادی تک ریڈیکل ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک کارکن رہے۔ 1947-48 ء میں انہوں نے خالصہ کالج ممبئی میں انگریزی ادب پڑھایا۔ اس درمیان ان کے کئی مضامین ہندوستان کے نمایاں اخبارات اور ادبی جریدوں میں شائع ہوئے۔
1948 ء میں جناب ای-القاضی کی مدد سے ازے کیل انگلینڈ چلے گئے۔ مشہور برک بیک کالج میں فلسفے کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے۔ انگلینڈ میں قیام کے آخری سال 1952ء میں ازے کیل کی پہلی تصنیف “اے ٹائم ٹو چینج” منظر عام پر آئی۔ ازے کیل نے انگلینڈ سے اپنی واپسی کے کرائے کا انتظام ایک پانی کے جہاز پر صفائی کر نے اور کوئلہ اٹھانے کی نوکری کر کے کیا۔ اپنے معیاری کام کے نتیجے میں ازے کیل کو “ایک ممتاز جہازی” ہونے کی سند ملی۔ تب سے لے کر آج تک ازے کیل نے مختلف پیشے اختیار کئے، پر زور ہمیشہ قلم کی جلوہ کاریوں پر رہا۔
انگلینڈ سے واپسی پر ازے کیل “دی السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا” کے ایڈیٹورئیل اسٹاف میں شامل ہوگئے، جہاں انہوں نے دو سال کام کیا۔ 1952ء سے 1962ء کی دہائی میں ازے کیل تسلسل کے ساتھ آل انڈیا ریڈیو کے ممبئی اسٹیشن سے نشر ہوتے رہے۔ نومبر1952ء میں ڈیزی جیکب سے شادی ہوگئی اور دسمبر میں 1953ء میں دوسرا شعری مجموعہ ، “ساٹھ نظمیں ” شائع ہوا۔ 1954ء میں شلپی ایڈورٹائزنگ کمپنی میں ازے کیل بحیثیت ایک کاپی رائٹر شامل ہو گئے۔ 1955ء میں کوئیسٹ کے پہلے ایڈیٹر بنے۔ 1957ء میں شلپی کے مینیجر کی حیثیت سے چار مہینے امریکہ میں رہے، جہاں فار فیلڈ فاؤنڈیشن کے ایک وظیفے کے سہارے امریکی یونیورسٹیوں کا دورہ کیا۔ 1959ء میں ازے کیل نے شلپی چھوڑ کر دوبارہ ٹیچری ا ختیار کرلی۔ اسی سال ممبئی کے “دی اسٹرانڈ بک شاپ” نے ازے کیل کا تیسرا شعری مجموعہ “دی تھرڈ” شائع کیا۔ ایک سال ایک پکچر فریم بنانے والی کمپنی “چیموولڈ” کے جنرل مینیجر کی حیثیت سے کام کیا، جس دوران ازے کیل نے اپنے چوتھے شعری مجموعے “دی ان فنشڈ مین” کی نظمیں لکھیں، جسے رائٹرس ورکشاپ کلکتہ نے 1960ء میں شائع کیا۔ 1961ء میں ماہنامہ امپرنٹ سے وابستہ ہوئے، جس میں ازے کیل نے بڑے پیمانے پر کتابوں کے تبصرے لکھے، اور ایک معتبر تنقید نگار کی حیثیت سے ابھرے۔ جون 1961ء میں ازے کیل تعلیمی زندگی کی طرف لوٹ آئے۔ میرا بائی کالج آف آرٹس ممبئی میں پروفیسر اور صدر شعبۂ انگریزی کی حیثیت سے جون 1974ء تک رہے۔ 1964ء سے 1966ء ، تین برس تک ازے کیل روزنامہ ٹائمس آف انڈیا کے آرٹ کریٹک رہے۔ بحیثیت ویزیٹنگ پروفیسر ازے کیل نے یونیورسٹی آف لیڈس (یوکے) میں جنوری سے جون 1964ء کے درمیان ہندوستان کے انگریزی ادب پر تاریخ ساز لیکچرز دئیے۔ 1965ء میں پانچویں شعری کتاب “دی ایگزیکٹ نیم” منظرِ عام پر آئی، جسے رائٹرس ورکشاپ کلکتہ نے شائع کیا۔ 1966ء سے 1967ء کے درمیان ان کی ادارت میں سہ ماہی “پوئیٹری انڈیا” کی چھ جلدیں سامنے آئیں۔
ازے کیل نے ہندوستانی پی آئی این میں ایک نمایاں کردار ادا کیا اور ایک دہائی سے زیادہ طویل عرصے تک اس کی مرکزی کیوٹیو کمیٹی کے ممبر رہے۔ بحیثیت سیکریٹری ازے کیل کے دو دور رہے، 1963ء سے 1966ء اور پھر 1968ء سے 1972ء۔ ازے کیل اگست 1972ء میں دی انڈین پی ای این کے مدیر بن گئے۔ 1969ء میں ازے کیل اپنی کتاب “تھری پلیز” تین ناٹک کے ساتھ ایک ڈرامہ نویس کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آئے۔ 1969ء سے 1972ء کے درمیان ازے کیل، جے جے اسکول آف آرٹس اور دیگر اداروں کے لئے فن شناسی کے آٹھ کورسز کی نظامت کی۔ نومبر 1974ء میں ازے کیل نے امریکی حکومت کی دعوت پر امریکہ کا دورہ کیا۔ بعد میں ازے کیل ممبئی یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی کے ریڈر ہوگئے۔ ازے کیل للت کلا اکادمی اور ساہتیہ اکادمی جیسے ذیشان اداروں کی جنرل کاؤنسلوں کے ممبر رہے۔
نیسمہِ ازے کیل کو ملے انعامات کی فہرست بہت طویل ہے، پھر بھی ان میں اہم ہیں ساہتیہ اکادمی انعام جو انہیں اپنی شعری کتاب “لیٹر ڈے پزلمس” کے لئے 1893ء میں ملا۔ 1988ء میں نیسمہ ازے کیل کو پدم شری کا ایوارڈ ملا۔
آج نیسمہ ازے کیل ہماری بیچ نہیں، صرف ان کا چلتا پھرتا جسم ہے جس کا بسیرا ہے ممبئی کے ایک نرسنگ ہوم میں۔ الزائیمر کے مرض نے جنوبی ایشیاء کو اس کے سب سے عظیم انگریزی شاعر سے محروم کردیا ۔۔۔
الٰہی ! ہمیں کچھ نہ دے زندگی سے
تعلق تو باقی رہے شاعری سے …انور ندیم

No comments:

Post a Comment